کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 28
میں ’میزان‘ کا نام یا صفت کہیں شامل نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو: البرہان :ج۱/ ص۲۷۳ تا ۲۷۶) 2. علامہ زمخشری (جسے غامدی صاحب إمام اللغۃ مانتے ہیں ، دیکھیں : میزان ج۱/ص۱۲۸ طبع ۱۹۸۵ء) نے اپنی تفسیر الکشاف میں سورۃ الشوریٰ کی مذکورہ بالا آیت میں الکتاب سے بھی قرآن مراد نہیں لیا بلکہ جنسِ الکتاب مراد لی ہے جس کا مطلب ہے: وہ سلسلۂ کتب جو اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں نازل کیا ہے۔ اس سے خاص قرآن مراد نہیں لیا جاسکتا، بلکہ ہر الہامی کتاب اس میں داخل ہے۔ اس کے علاوہ علامہ زمخشری نے میزان کو قرآن کی صفت نہیں مانابلکہ ’و‘ کو عاطفہ مانا ہے اور قرآن اور میزان کو دو الگ الگ چیزیں قرار دیا ہے۔ نیز اُنہوں نے میزان کے دو معنی لکھے ہیں ، ایک ’عدل و انصاف‘ اور دوسرے ’ترازو‘ لہٰذا جب عربی زبان کے امامِ لغت نے مذکورہ آیت میں نہ تو قرآن کو میزان قرار دیا ہے اور نہ ’و‘کو بیان یا تفسیر کے معنوں میں لیا ہے بلکہ واؤ عاطفہ قرار دے کر اس سے ’عدل وانصاف‘ یا ’ترازو‘کے معنی لئے ہیں تو غامدی صاحب کس بنیاد پر اس آیت سے قرآن کا میزان ہونامراد لے سکتے ہیں ؟ الکشاف کی پوری عبارت باحوالہ یوں ہے: أنزل الکتاب، أي جنس الکتاب ﴿وَالْمِیْزَانَ﴾ والعدل والتسویۃ، ومعنی إنزال العدل أنہ أنزلہ في کتبہ المنزلۃ وقیل الذي یوزن بہ (الکشاف:ج۳/ ص۴۶۵، طبع مصر ۱۳۹۲ھ) آیت ِمذکورہ کا یہی مفہوم امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے ’تفسیر طبری‘ میں ، امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ’تفسیر قرطبی‘ میں ، حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ’تفسیر ابن کثیر‘ میں ، علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’فتح القدیر‘ میں ، علامہ محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ’روح المعانی‘ میں اور احمد مصطفی مراغی رحمۃ اللہ علیہ نے ’تفسیر مراغی‘ میں بیان کیا ہے۔ ان میں سے کسی مفسرنے اس آیت میں الکتاب سے نہ تو قرآن مراد لیا ہے اور نہ میزان کواس کی صفت قرار دیاہے۔ بلکہ اُمت ِمسلمہ کے یہ تمام معتمد علیہ اور عربی زبان و ادب کے ماہر مفسرین کرام اس آیت کا ایک ہی مفہوم مراد لیتے ہیں کہ اس میں الکتاب سے سلسلۂ کتب مراد ہے اور میزان سے یا تو عدل و انصاف مراد ہے یا پھر ترازو مراد ہے، ان میں سے کسی نے بھی اس آیت کا وہ مفہوم نہیں لیا جو غامدی صاحب اس آیت سے کشید کرتے ہیں ۔