کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 22
ببلد لا یثبت حکمہ لما بَعُد منہم
امام بخاری نے باب لکل بلد رؤیتہم (معروف نسخہ میں یہ باب نہیں )
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے باب اختلاف أہل الآفاق في الرؤیۃ
امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے باب إذا رء ي الہلال في بلد قبل الآخرین بلیلۃ
امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے باب الدلیل علی أن الواجب علی کل أہل بلد
صیام رمضان لرؤیتہم لا لرؤیۃ غیرہم
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے باب الہلال إذا رأوہ أہل بلد ہل یلزم بقیۃ البلاد
الصوم (یہ باب امام صاحب کی کتاب حدیث منتقی الاخبار کا ہے)
امام ابن الاثیر رحمۃ اللہ علیہ نے باب اختلاف البلد في الرؤیۃ (’جامع الاصول‘ میں )
ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے في القوم یرون الہلال ولا یرون الآخرون
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالا باب کے تحت کریب رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کردہ حدیث ِابن عباس رضی اللہ عنہ کو ذکرکرکے فرمایا ہے : ’’ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، اور اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔‘‘
ان واضح دلائل اور حقائق کے باوجود پاکستان میں تاحال اختلافِ مطالع کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ بعض احناف کے ہاں اختلافِ مطالع کا تصور معتبر نہیں ہے، اسی بنا پر پاکستان کے علماے احناف پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن عید اور روزے کے بھی قائل رہے ہیں ۔ لیکن مزید تحقیقات ہونے پر بعض حنفی علما نے اس موقف سے اب رجوع بھی کرلیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایسا مشاہدہ ہے جس کے بعد کوئی دوسرا چارہ کار نہیں رہتا۔ مثال کے طورپر ایک علاقے میں دوسروں کے برعکس ۲۸ روز کے بعد ہی چاند نظر آجائے تو لازمی بات ہے کہ اس کے مطلع کو مختلف ماننا ہی پڑے گا۔چنانچہ حنفی علما میں علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عبد الحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اختلافِ مطالع کو معتبر تسلیم٭ کیاہے۔اور ندوۃ العلما، لکھنؤ کی مجلس تحقیقاتِ شرعیہ نے ۳،۴ مئی ۱۹۶۷ء کو اپنے فیصلہ میں اختلافِ مطالع کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ
’’محققین احناف اور علماے اُمت کی تصریحات اور ان کے دلائل کی روشنی میں مجلس کی متفقہ رائے یہ ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطلع معتبر ہے۔‘‘ (جدید فقہی مسائل: ۱/ ۸۹ تا۹۴)
_______________
٭ اس موضوع پر حنفی فقہا کی مکمل آرا کے مطالعے کے لئے دیکھئے ’محدث‘ کا شمارۂ اپریل ۱۹۹۹ء، ص۱۷ تا ۲۱