کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 20
موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تقاضا ہرگز نہیں کیا کہ اگر چاند موجود تھا تو ہمیں نظر کیوں نہیں آیا؟ اس لئے یہ شہادت غیر معتبر ہے۔ چنانچہ آج بھی مستند اور دیندار اکیلے شخص کی گواہی پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر معاملات حل ہونے سے ان شاء اللہ آسانی ہی حاصل ہوگی۔ 2. ہمارے ہاں اکثر وبیشتر صوبہ سرحد میں دوسری عید کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ کبھی گوجرانوالہ یا ملتان کے لوگوں کی دوسری عید کا سوال پیش نہیں آیا۔ اس مسئلہ کے پیچھے بعض اوقات سیاسی مصالح کارفرما ہوتی ہیں جیسا کہ گذشتہ سال ۲۰۰۶ء میں بعض باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ وفاق اور صوبہ سرحد کی حکومت کے مابین بعض پیچیدگیاں اس کا سبب بنی تھیں ۔ سیاسی پیچیدگی تو محض وقتی ہے، دینی تقاضوں کو بہر صورت اُن سے بالاتر ہوکر پورا کرنا چاہئے۔ بعض اوقات ا س کے پس پردہ صوبہ پشاور کے عوام کے دیگرمحرکات ہوتے ہیں ، مثلاً افغانستان کے عوام سے اظہار ِقربتجن کا ان سے گہرانسلی تعلق ہے۔ بالخصوص جب سے پشاور وافغانستان میں عرب مجاہدین کی آمد ورفت میں اضافہ ہوا ہے تو ان میں سے بعض عرب مجاہدین ان علاقوں میں ہونے کے باوجود عید و رمضان کے لئے اپنے اصل علاقوں کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں ۔ بعض اس کی وجہ سعودی عرب کے نظامِ رؤیت کے قابل اعتماد ہونے کو بتاتے ہیں تو بعض اُصولاًہی اس نادر نظریہ پر عمل پیراہیں کہ مکہ مکرمہ کی رؤیت تمام دنیا کے لئے معتبر ہے اور پوری دنیا میں اسی کے مطابق ہی رمضان اور روزہ وغیرہ کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ ماضی میں اختلافِ مطالع کا مسئلہ تو اس قد رنکھر کر سامنے نہیں آیا تھا، کیونکہ دور دراز سے فوری اطلاع ملنا ہی کافی مشکل تھا، لیکن جب سے دنیا میں رابطہ ومعلومات اور نقل وحمل کی سہولیات وافر ہوگئی ہیں ، تب سے یہ مسئلہ کافی اُبھر کر سامنے آگیا ہے۔ غیرمسلم ممالک میں رہائش پذیر مسلمانوں میں بھی اس حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں ، چنانچہ برطانیہ میں بعض لوگ تو مکہ مکرمہ کے ساتھ ہی رمضان وغیرہ کا آغاز کردیتے ہیں اور بعض لوگ مراکش وغیرہ (جو قریب ترین اسلامی ملک ہے) کی رؤیت پراعتماد کرتے ہیں ۔ چاند کے طلوع ہونے کی جگہ کو مَطلَع کہتے ہیں ۔اور یہ بات اب مسلمہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے کہ دنیا بھر میں چاندکے مطالع مختلف ہیں اور دور کے شہروں کی رؤیت معتبر نہیں