کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 17
مطالعہ ہے۔ (فتح الباری: ۴/۱۵۷، ۱۵۸، أبحاث ہیئۃ کبار العلمائ: ۳/۳۰، فقہ النوازل:۲/۱۸۹) بعض علما کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ رؤیت کی بجائے نظام فلکیات پر اعتماد کے قائل تھے، لیکن اس سلسلے میں جن علما کا نام لیا جاتا، ان کا بارے میں مستند طورپر یہ بات ثابت نہیں ہوسکی۔ (مزیدتفصیل کے لئے دیکھیں : ’رؤیت ِہلال‘ از مقصود الحسن فیضی:۲۷ تا ۵۶) ٭ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج مسلمان جس طرح نمازوں کے لئے گھڑیوں پر انحصار کرلیتے ہیں ، اور کوئی سورج کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا تو کیا ازروئے شریعت ایسا ہی چاند کے بارے میں نہیں کیا جاسکتا…؟ اوپر درج شدہ فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پتہ چلتا ہے کہ رؤیت ِہلال شریعت کا باقاعدہ تقاضا ہے، جس کی حکمتیں بھی پیچھے گزر چکی ہیں جبکہ سورج پر مبنی اوقاتِ نماز کے مشاہدہ کا ایسا باقاعدہ تقاضا شریعت میں موجود نہیں ہے۔ یوں بھی رمضان کے دنوں کے برعکس نمازوں کے اوقات میں توسع پایا جاتا ہے۔ چاند کی روشنی لطیف (قرآنی الفاظ میں نور) ہوتی ہے جسے تلاش کرنا پڑتا ہے جبکہ سورج کی روشنی انتہائی تیز (قرآنی الفاظ میں ضیائ) جو اپنی موجودگی کا نہ صرف خود پتہ دیتی ہے بلکہ نظر کو خیرہ کردیتی ہے۔ چاند کی ساخت میں تاریخوں کے اعتبار سے کمی بیشی واقع ہوتی رہتی ہے جبکہ سورج طلوع وغروب کی ہر حالت میں اپنے پورے سائز پر برقرار رہتا ہے۔ سورج بذاتِ خود روشنی کا قوی منبع ہے، جبکہ چاندکی روشنی سورج اور زمین کے ایک مخصوص زاویے پر آنے سے ہی زمین پرپہنچتی ہے۔ یہ ہیں وہ وجوہات جن کی بنا پرسورج اور چاند کے معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو شریعت کا تقاضا ہے کہ رمضان کے آغاز کو رؤیت ِہلال پر ہی منحصر سمجھا جائے لیکن اسلام سائنس کا مخالف نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو سائنسدانوں سے معاندت کی بجائے ان کی مدد حاصل کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ اگر سائنسدانوں کو یقین ہے کہ چاند مغرب کے بعدفلاں فلاں زاویے پر اتنے منٹ کے لئے نمودار ہوگا تو ذمہ دار مسلمانوں کو ان کی مدد لیتے ہوئے ان سے تقاضا کرنا چاہئے کہ لائیے ہمیں اپنی آنکھ سے بھی اس کا مشاہدہ کروا دیجئے تاکہ شرعی تقاضا بھی پورا ہوجائے، اور کوئی ابہام باقی نہ رہے۔