کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 16
تاریخوں کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے، اس لئے یہی دو مہینے سب سے زیادہ توجہ کے متقاضی رہتے ہیں جبکہ سال بھر کوئی اور ایسا تہوار پہلے دن سے شروع نہیں ہوتا۔ چند روزگزر جانے کے بعد آسمان پر موجود چاند کی کیفیت سے بہت سے شبہات از خود ختم ہوجاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً عید الاضحی یا محرم الحرام وغیرہ کے سلسلے میں وہ پیچیدگی بھی پیش نہیں آتی۔
مشاہدہ رؤیت کوئی مجرد مطالبہ نہیں بلکہ دراصل یہ نظام فطرت پر انحصار ہے اور دین میں آسانی کا پہلوظاہر کرتا ہیکیونکہ محاق یا اجتماعِ نیرین کو ہرشخص کیوں کر محسوس کرسکتا ہے۔
٭ رؤیت ِہلال کے سلسلے میں رؤیت پر انحصار کیا جائے یا حساب ، نظام فلکیات پر، اس سلسلے میں ائمہ اسلاف رحمۃ اللہ علیہ کا موقف کیا رہا ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’وقد أجمع المسلمون علیہ ولا یعرف فیہ خلاف قدیم أصلا ولا خلاف حدیث إلا أن بعض المتأخرین من المتفقہۃ الحادثین بعد المائۃ الثالثۃ زعم أنہ إذا غم الہلال صار للحاسب أن یعمل في حق نفسہ بالحساب فإن کان الحساب دلَّ علی الرؤیۃ صام وإلا فلا۔ ہذا القول وإن کان مقیَّدا بالإغمام ومختصًّا بالحاسب فہو شاذ مسبوق بالإجماع علی خلافہ فأما اتباع ذلک في الصحو أو تعلیق عموم الحکم العام بہ فما قالہ مسلم‘‘ (مجموع فتاویٰ : ۲۵/۱۳۲، ۱۳۳)
’’مسلمانوں کا (قمری ماہ کو رؤیت ِہلال سے شروع کرنے پر) اجماع ہے اور اس سلسلے میں قدیم وجدید مسلمانوں میں کوئی بھی اختلاف پایا نہیں جاتا۔ ماسواے اس امر کہ تیسری صدی ہجری کے بعد بعض فقہا نے یہ موقف اختیار کیا کہ اگر آسمان پر بادل وغیرہ ہوں تو حساب رکھنے والا اپنی حد تک حساب پر بھی عمل کرسکتا ہے۔ اگر حساب کی رو سے رؤیت ِہلال واقع ہوتی ہے تو وہ خود روزہ رکھ سکتا ہے، وگرنہ نہیں ۔ یہ قول اگرچہ بادلوں اور حساب رکھنے والے شخص کے ساتھ مخصوص ہے،پھربھی شاذ ہے اور ما قبل منعقدہ اجماع کے مخالف بھی۔ البتہ مطلع صاف ہونے کی صورت میں حسا ب کو معتبر ماننا اور اسے ایک عام حکم قرار دینا ایسا موقف ہے جس کا کبھی بھی کوئی مسلمان قائل نہیں رہا۔‘‘
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے جو موقف پیش کیا ہے، اسی کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور سعودی عرب کی کبار علماء کونسل نے بھی اختیار کیا ہے۔اور اس موضوع پر شیخ بکر ابو زید کا ایک طویل مقالہ بھی لائق