کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 14
تر رہا جاسکتا ہے اور اپنے معمولات کی بھی اچھی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔
5. اعتراض: اس سلسلے میں سائنس پر انحصار کرنے میں کیا قباحت ہے ؟
اس کی ایک وجہ تو اوپر گزر چکی ہے کہ سائنسی ضابطوں کو اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، سائنس دان رؤیت ہلال کی بجائے چاند کی تخلیق کی تاریخوں پر اعتماد کرتے ہیں ۔ یوں بھی مشاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ سائنسدانوں کا یہ دعویٰ نرا دعویٰ ہی ہے کہ ان کے پاس اسلامی تقاضوں کے مطابق فول پروف نظام موجود ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ہزاروں ڈائریاں چھپتی ہیں اوران میں قمری تاریخ کے لئے جس نظام پر اعتماد کیا جاتا ہے، وہ گرینچ یا عالمی سائنسی اداروں سے جاری شدہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا روزمرہ مشاہدہ ہے کہ وہ تاریخیں اکثر غلط ثابت ہوجاتی ہیں ، اسی سے سائنسی دعوے کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے۔
اگر ایسا ہی مثالی نظام موجود ہے تو ترقی یافتہ دنیا سے شائع ہونے والے قمری کیلنڈر اور ڈائریاں اس کا انکشاف کیوں نہیں کر دیتے اور عملاً چند سال کے مشاہدے سے ایسا ثابت کیوں نہیں ہوجاتا کہ یہ نظام قابل اعتماد کیفیت تک پہنچ گیا ہے۔انسان نے پہلے بھی اپنے مفاد کے لئے ایک متوازی نظام (عیسوی تقویم) وضع کررکھا ہے، اگر قمری نظام کے سلسلے میں بھی رؤیت کے حقیقی نظام کی بجائے حسابات پر انحصار کرلیا گیا تویہ بھی بتدریج ایک متوازی نظام کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے حقیقی فطری تقویم سے بعید تر ہوتا جائے گا۔
رابطہ عالم اسلامی اس موضوع پر کافی مجالس منعقد کرچکی ہے، یہ مسئلہ وہاں بھی درپیش آیا کہ کیا سائنسی علم اس سلسلے میں پایۂ یقین کو پہنچ چکا ہے یا ابھی ظن وتخمین کے مرحلے میں ہے۔ اس سلسلے میں متعدد واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور ماہرین فن کے ساتھ مباحثے کے نتیجے میں دسمبر ۱۹۸۵ء میں اسی موضوع پر منعقد ہونیوالی مجلس کے سربراہ نے آخر کار یہی فیصلہ دیا کہ
’’وقد سمعتم ما ذکر علی ألسنۃ البعض منہم أنہ ظني وقد سمعتم من یحکي شیئا من قطعیتہ ومنہم من یقول أنہ شبہ قطعي وما جرٰی مجری ذلک ( مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامي: عدد۲/جز۲، ص ۱۰۳۰)
’’آپ نے یہ بھی سنا جو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ علم ابھی ظنی (غیرحتمی) ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ قطعی ہوچکا ہے جبکہ بعض نے اسے قطعی کے قریب قریب قراردیا۔ ‘‘