کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 12
قمری ماہ کو عملی مسئلہ کی بجائے اسے ایک سائنسی پیمائش بنا دیا ہے، جبکہ اسلام نے اسے ایک سادہ روزمرہ حقیقت بنایا ہے جس سے جاہل شخص بھیچاند کو دیکھ کر ہی فائدہ اُٹھاسکتا ہے۔ جب تک اس سلسلے کی ضروری تحقیقات پوری نہیں ہو جاتیں ، حائل رکاوٹیں ختم ہوکر ایک منضبط معاون نظام حاصل نہیں ہوجاتا، اس وقت تک مسلمان عیسوی تقویم کے بجائے اس نظام کو اختیار کرسکتے ہیں جو سعودی عرب میں رائج ہے۔ سعودی عرب میں ہجری تقویم کے ہی دو ماڈل بیک وقت زیر استعمال ہیں ۔ ایک حقیقی جو رؤیت ِہلال پر منحصر ہے اور اس کی بنا پر عبادات اور رمضان وعیدین وغیرہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ ملکی معاملات کو چلانے کے لئے ہجری تقویم کا متوقع قمری کیلنڈر (تقویم اُمّ القری) جدید سائنسی تحقیقی اداروں سے حاصل کرلیا جاتا ہے، اور ان مطبوعہ تاریخوں پر پورے ملک کا نظام جاری وساری رہتا ہے۔٭ مجھے اس امر کا ذاتی طورپر گذشتہ سال سعودی عرب کے سفر کے دوران رمضان المبارک میں تجربہ ہوا۔ جب ۲۸ رمضان کو ریاض سے لاہور واپسی کے لئے میں ریاض ائیرپورٹ پہنچا۔ اس سال سعودی عرب میں رمضان متوقع اندازے اور مطبوعہ کیلنڈر سے ایک دن بعد شروع ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے ملک سے خروج کا اِندراج کرنے والے اہلکارکو حقیقت کے مطابق ۲۸ رمضان کی تاریخ بتائی، لیکن اُس نے کہا کہ وہ پاسپورٹ پر ۲۷ رمضان ہی درج کرے گا، کیونکہ سعودی نظام مطبوعہ کیلنڈر کے مطابق چلتا ہے جس کی سال کے آخر میں حقیقی تواریخ کے مطابق اصلاح بھی کرلی جاتی ہے۔ یہ وہ درمیانی طریقہ ہے جس کے ذریعے اسلامی تقاضوں کے مطابق سائنسی تحقیقات حتمی ہوجانے تک، ہجری تقویم کے اس مسئلے کا بھی قابل عمل حل نکالا جاسکتا ہے۔ اوراسی صورتحال سے ہمارے بعض مہربانوں کو سعودی حکومت کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ وہ رؤیت کی بجائے سائنسی نظام پر اعتماد کرتے ہیں ۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں بلکہ ان کے ہاں ہجری تقویم کا ہی دوہرا نظام موجود ہے۔ اور عیدین و _______________ ٭ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ’کنگ عبد العزیز سٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ KACST قائم ہے جس میں علومِ فلکیات کے لئے ایک مستقل ’ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ قائم ہے۔ یہی ریسرچ انسٹیٹیوٹ مکہ کی اسلامی یونیورسٹی جامعہ اُمّ القری کو تقویم کے لئے جملہ تکنیکی معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔ تقویم اُمّ القری KACSTکی ویب سائٹ www.ceri.kacst.edu.sa سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔