کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 11
’’ہم نے چاند کی منازل مقرر کی ہیں حتیٰ کہ وہ باریک ٹہنی کی مانند ہوجاتا ہے۔ نہ تو سورج کی یہ ہمت ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ ہی رات دن سے سبقت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہرچیز اپنے اپنے مدار میں تیر رہی ہے۔‘‘ (یسٓ: ۳۹) ان آیات سے بخوبی علم ہوتا ہے کہ جس طرح سورج کا ایک واضح نظام مقرر ہے، عین اسی طرح چاند کا بھی ایک واضح نظام موجود ہے۔ سورج اور چاند کے بارے میں سائنسی تحقیقات کافی ترقی کرچکی ہیں اور برطانیہ کے ایک قصبے گرینیچ میں اس حوالے سے باقاعدہ مراکز تحقیق موجود ہیں جہاں سے سورج اور سائنس کی معیاری تفصیلات حاصل ہوتی ہیں ۔ جس طرح سورج کے بارے میں ایک نظام وضع کرلیا گیا ہے، گو کہ وہ مصنوعی ہے اور دینی ادارے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر ملک کے سٹینڈرڈ ٹائم پر نمازوں کے اوقات کی اضافی ہدایات والے چارٹ شائع کرتے ہیں ، کیونکہ نمازوں کے اوقات حقیقی وقت پر ہی منحصر ہوتے ہیں ؛ اسی طرح اس امر کی ضرورت ہے کہ چاند کے بارے میں بھی ایسی ہی تحقیقات مکمل کی جائیں۔ دراصل چاند کے بارے میں ہونے والی تحقیق اور اسلام کے تقاضوں میں ہم آہنگی اور امتزاج پیدا نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ سائنس دان قمری مہینے کی جو تفصیل پیش کرتے ہیں ، وہ اسلامی اُصولوں سے میل نہیں کھاتی۔ مثال کے طورپر اسلام کا تقاضا رؤیتِ ہلال کا ہے جومختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے۔ جبکہ سائنس رؤیت ِہلال کی بجائے چاند کی پیدائش کے حساب کو پیش نظر رکھتی ہے۔ چاند کی پیدائش اور اس کی رؤیت میں ۳۰ سے لے کر ۹۶ گھنٹوں تک فرق ہوتا ہے جس کی بنا پر نتائج مختلف ہوجاتے ہیں ۔یعنی چاند اپنی پیدائش (جسے اجتماعِ نیرین، قِران، عربی میں محاق اور انگریزی میں Conjunctionکہا جاتا ہے)کے کم از کم ۳۰ گھنٹوں تک قابل رؤیت نہیں ہوتا جب تک چاند اور سورج کے درمیان ۱۵ درجے کا زاویہ نہیں بن جاتا۔ المختصر سائنس کو اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اس سے شریعت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آسان الفاظ میں سائنس دانوں کے ہاں ہر قمری مہینہ ۲۹دن، بارہ گھنٹے اور ۴۴ منٹ کا ہوتا ہے، اور تمام مہینے برابر ہوتے ہیں جبکہ اسلام کی روسے قمری ماہ کبھی ۲۹ دن کا ہوتا ہے تو کبھی ۳۰ دن کا۔ یہ سائنسی ضابطہ سیدھا سیدھا اسلام کے خلاف ہے۔ یعنی سائنس دانوں نے