کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 10
مسلمانوں کا اپنے سنہرے ماضی اور روایات و اَسلاف سے تعلق منقطع ہوجائے۔ آج عالم اسلام کا اکثر وبیشتر حصہ مغربی معاشرت کے اُصولوں پر قائم ہے۔ ان حالات میں واحداسلامی ریاست سعودی عرب میں ہجری تقویم زیرعمل ہے۔ یہی وہ واحد ریاست ہے جہاں اسلام کا عدالتی، معاشرتی اور تعلیمی نظام بھی اکثر وبیشتر اسلامی خطوط پر استوار ہے۔سعودی عرب میں ہجری تقویم نے کوئی عملی مسئلہ پیدا نہیں کیا اور اس سے ان کے روزمرہ معمولات میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ (سعودی عرب میں جاری تقویم کے سلسلے میں مزید تفصیل آگے ملاحظہ کریں ) 4. سوال: کیا تقویم کی کوئی متبادل اساس ہوسکتی ہے ؟ تقویم کے سلسلے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تاریخوں اور مہینوں کو اُصولِ فطرت پر منحصر ہونا چاہئے یا اس کی کوئی متبادل اساس مثلاًکسی شاہ کا حکم، کسی پارلیمنٹ کا فیصلہ ،کسی مذہبی رہنما کی ہدایت یا کسی خودساختہ نظام کا تسلسل بھی ہوسکتا ہے؟ اس سلسلے میں اسلامی شریعت کا موقف یہ ہے کہ زمانہ اللہ سے منسوب ہے، روز وشب کا مالک وہی ذاتِ یکتا ہے، ان ایام سے مخصوص برکات وفضائل کو اُسی نے وابستہ کیا ہے، اس لئے تاریخوں اور مہینوں کا تعین اس کے پیدا کردہ نظامِ فطرت پر ہی منحصر ہونا چاہئے۔یہ نظامِ فطرت زمین کے جس حصے میں جس دن کو جس تاریخ سے منسوب قرار دے، اسی کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ اس نظامِ فطرت میں تغیر و تبدل رونما ہونے سے انسان کے مستقبل کی منصوبہ بندی متاثر ہوتی ہے، اس بنا پر ایک متبادل نظام وضع کرنا ضروری ہے تو یہ کوئی مناسب حل نہیں ۔ اوّل تو قرآنِ کریم کی آیات کی رو سے سورج اور چاند ایک مقررہ اندازے کے مطابق چل رہے ہیں اور وہ اس سے سرمو اِنحراف نہیں کرتے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اس مقررہ نظام کو سمجھنے اور اس تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ قرآنِ کریم میں ہے : ﴿اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ﴾ (الرحمن : ۵) ’’سورج اور چاند ایک مقررہ اندازے کے مطابق چل رہے ہیں ۔‘‘ ﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَہَا أنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌ مْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ﴾