کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 9
ملک کو مزیدابتری سے دوچار کرنے کے لئے غیرملکی ہاتھ بھی پاکستان میں سرگرم ہوگیا ہے اور اس نے اپنے مفادات کے پیش نظر مختلف نوعیت کی ہلاکت خیزیوں اور بم دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ان بم دھماکوں کا مجرم دینی طلبہ کو قرار دے کر جہاں عوام کو دینی طبقہ سے مزید متنفر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہاں حکومت بھی اُنہیں خودکش بم دھماکے قرار دے کر گویا اپنے آپ کو بری قرار باور کرا رہی ہے۔ اس سے ملک میں نظریاتی کشمکش کو بھی مزید ہوا مل رہی ہے۔ ان حالات میں ایسے دینی اداروں کو دانشمندی اور عقل وہوش کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہئے۔اس مرحلہ پر اس امر کی شدیدضرورت ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ غیرملکی مداخلت کار ان اداروں اور نوجوانوں کو اپنی پرفریب چال کا اس طرح شکار بنانے میں کامیاب نہ ہوجائے کہ اُنہیں اپنا آلہ کار بناکر اپنے ہی ملک او راپنے ہی ہم مذہبوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیں ۔ اسلام کی تعلیمات اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں اور اسلامی ادارے ماضی کی طرح پرامن جدوجہد پر ہی یقین رکھتے ہیں ۔ خارجی عناصر و وجوہات کی بنا پر مدارس ومساجد جیسے امن کے گہواروں کی دیرینہ روایت کسی طور متاثر نہیں ہونی چاہئے۔ لا ل مسجد سے قبل ذمہ دارانِ مدارس کا معاشرے کے ہر طبقہ کو یہ چیلنج ہوتاتھا کہ کسی مدرسہ میں اگر کوئی پرتشدد کاروائی اور اسلحہ ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے اور اس الزام میں آج تک اسلام مخالف عناصر کامیاب نہیں ہوسکے۔ مدارس کی یہ روایت آج بھی برقرار ہے اور اسلا م کے علم بردار آج بھی اپنے پیش روؤں کی طرح پرامن رہ کرہی اپنی جدوجہد اور فرض کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے رہیں گے۔ یاد رہے کہ کسی کی غلطی اور کوتاہی کا بوجھ دوسرے پر کسی طورعائد نہیں ہوتا۔ بالفرض قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بعض معاملات میں قوتِ مقتدرہ کا حکم مان کر اپنے مسلمان بھائی بہنوں پرگولیاں چلائی ہیں تو اس سے دیگر فوجیوں یا سپاہیوں پر جارحیت کسی طور جائز نہیں ہوگئی۔ اسلام تو سب سے پہلے ہمیں اپنے وجود پر اسلامی احکامات نافذ کرنے کی تلقین کرتا ہے پھر ہمیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا درس دیتا ہے، لیکن یادرہے کہ یہ درس دو باتوں سے مشروط ہے : 1. نہی عن المنکراس صورت میں مشروع ہے جہاں برائی فروغ پا رہی ہو، اس کو ختم کرنے کی