کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 80
مطالبہ کیا جو بھارت کے مطابق سنگین ’جرائم‘ میں ملوث تھے۔ آخر ہمارے حکمران سینکڑوں افراد کی جانیں بچانے کے لئے عبدالرشید غازی کومحفوظ راستہ دینے پر کیوں آمادہ نہ تھے…؟ اس خونخواری و خونریزی سے گریز ممکن تھا۔ بجا کہ ریاست نے اپنی رِٹ قائم کرلی، درست کہ عبدالرشید غازی کے بعد پاکستان زیادہ محفوظ و مامون ہوگیا، برحق کہ فوج نے اپنی طاقت کا لوہا منوا لیا، لیکن کیا ’روشن خیالی‘ اسی کا نام ہے؟ کیا مہذب ریاستیں ، یہی کچھ کیاکرتی ہیں ؟ اگرامریکہ کویہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ’دہشت گردی‘ کا خاتمہ صرف میری قوتِ بازو ہی سے ممکن ہے اور اس قوتِ بازو کا انحصار میری وردی پر ہے تو یہ پیغام صاف اور بلند آہنگ میں پہنچ گیا۔ اس کی تصدیق بھی ہوگئی اور تائید بھی۔ داد بھی مل گئی لیکن جابروں کے قبیلے میں کوئی ہے جو بتا سکے کہ اس سے پاکستان کے سینے پر کتنا گہرا گھاؤ آیا ہے؟ کس کو خبر ہے کہ جب بوڑھی ماؤں کی لاشیں اپنے بیٹوں کی گود میں گرتی ہیں تو اللہ کا عرش بھی لرز جاتا ہے۔کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ بپھری ہوئی رعونت اور اندھی طاقت آزمائی، نفرتوں کو ہوا دیتی اور ہرموجِ خوں وطن کی سرزمین میں ایک گہری دراڑ ڈال جاتی ہے؟ کسی دشمن سرزمین پر فاتحانہ آپریشن کے سے انداز میں لشکر کشی کی فنی جزئیات پر روشنی ڈالنے کے باوجود کوئی ترجمان یہ بتانے پر تیار نہیں کہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے صحن، برآمدوں ، کمروں ، راہداریوں میں کتنی لاشیں بکھری پڑی ہیں ؟ان میں کتنے بچے ہیں اور کتنی خواتین؟ سب کے ماتھوں پر ’دہشت گردوں ‘ کے لیبل سجا دیئے گئے ہیں ۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس کا خون کس کے خون میں تحلیل ہوگیا؟کوئی نہیں جانتا کہ مقتولین کے ماں ، باپ، بھائی بہن کہاں ہیں اور کس کرب کی آگ میں جل رہے ہیں ؟ کوئی نہیں جانتاکہ ’آپریشن سائلنس‘ کی کوکھ سے کتنی قباحتیں جنم لیں گی؟ بسی اتنی خبر ہے کہ وائٹ ہاؤس نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ عینی شاہد کی طرح تمام تر ذمہ داری مسجد انتظامیہ پر ڈال دی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس قتل عام کی ستائش کی ہے اور لندن میں بیٹھے الطاف حسین نے اس کارنامے کو سراہا ہے۔ نائن الیون کا آسیب بھی کتنا بڑا ’دیوتا‘ بن گیا ہے۔ پانچ چھ دن قبل مجھے اسلام آباد سے بیگم کا فون آیا۔ وہ بتانے لگیں ’’غازی صاحب کی بہن کا فون آیا ہے۔ وہ رو رہی تھی اور آپ کے بارے میں کہہ رہی تھی کہ ان سے کہیں کچھ کریں ۔‘‘ میں اس رات سو نہیں پایا تھا۔ میں پاکستان میں ہوتا بھی تو کیا کرلیتا؟ فتح و کامرانی کے پھریرے لہراتا لشکر ِبے اماں ، کیڑے مکوڑوں کو خاطر میں نہیں لایا کرتا۔ شہید باپ اور شہید ماں کا شہید بیٹا، ہمارے لفظوں کی میناکاری سے بے نیاز ہوچکا ہے۔ اللہ اس کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ اس کی خطائیں معاف کردے۔ اس کے درجات بلند کرے اور ان سب کے بھی جواس عہد ِخون رنگ کی خون آشامی کا لقمہ ہوگئے! مولانا فضل الرحمن خلیل شایداب تک نہیں جان پائے کہ ان کا سابقہ کن بے رحم موسموں سے آپڑا ہے۔ اپنی پسند کے نشانے تلاش کرنے، اپنی مرضی کے سینے چھلنی کرنے، اپنے دل پسند تابوتوں میں بند کرنے، اپنی پسند کی قبروں میں پھینکنے اور اپنی مرضی کے جنازے پڑھوانے والوں کے سینے میں دل نہیں ہوا کرتے!! ( نوائے وقت: ۱۲/جولائی ۲۰۰۷ء)