کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 8
کچھ حاصل ہونے کی بجائے وہاں ایک لادین سیاسی نظام کا اقتدار ہی برقرار رہتا نظر آتا ہے۔ ایک طرف پاکستان کے اہم دینی اداروں اور تنظیموں میں مذکورہ بالا صورتحال کے شواہد کی طرف ہر شخص کی نظر جارہی ہے، اور جامعہ حفصہ کے بارے میں ہر غور وفکر کرنے والا یہ سمجھ رہاہے کہ یہ المیہ ایجنسیوں کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے تو دوسری طرف عین انہی دنوں ۲۶ جولائی کو مقبوضہ کشمیر کے بھابھا ایٹمی سینٹر میں دہشت گردی کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اور ۳۱جولائی کے اخبارات کے مطابق ایک عسکری تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ موجودہ حالات میں اس عقل ودانش کا ماتم کرنے کو جی چاہتاہے جسے ان حالات میں یہ کارنامہ اپنے کھاتے میں ڈالنے کی تو فکر ہے لیکن اس کے نتائج وعواقب سے وہ دانش بالکل بے پرواہ ہے۔اگر خبر اور ذمہ داری دونوں کو درست سمجھ لیا جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف مجاہدین نے ایٹمی سنٹر میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تو دوسری طرف پاکستان میں اس عسکری تنظیم کے مراکز کو بھی اسی المیہ اور سانحہ کی طرف تدریجا ًبڑھایا جارہاہے جس کا مشاہدہ اسلام آباد کی لال مسجدمیں قوم کرچکی ہے۔جنرل مشرف ہرقیمت پر سپرطاقتوں کی تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں ، چاہے اس کے لئے اُنہیں ملک، قوم، دین اور انسانی جانوں کو قربان کرنا پڑے۔ ان حالات میں اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اور اگر یہ دونوں باتیں حقائق پر مبنی نہیں بلکہ غیروں کی اُڑائی ہوئی افواہیں ہیں تو پھر ہماری دینی عسکری تحریکوں کو اپنے اوپر منڈلاتے بادلوں کو بھانپ لینا چاہئے اور اپنی حقیقی قوت پر ہی انحصا رکرنا چاہئے، ایجنسیاں پرائیویٹ اداروں سے کہیں زیادہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے طاقتور اور سفاک ہیں ۔ جامعہ حفصہ کے سانحے میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ دینی اداروں اور تحریکوں کو اپنے اصل کام یعنی دعوت واصلاح پر توجہ مرتکز رکھنی چاہئے اور دھوکے مغالطے میں ڈالنے والے عناصر سے محتاط رہنا چاہئے۔ دینی ادارے امن وسلامتی کے پیامبر ہیں ! ملک دہشت گردی اور بدامنی کی بدترین کیفیت سے دوچار ہے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام، بالخصوص دین دار مسلمان حکومت کے خلاف شدید غم وغصہ کا شکار ہیں ۔ ان حالات میں