کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 78
میں منگل کے دن، پاکستانی وقت کے مطابق کوئی سات بجے شام بوسٹن کے ریلوے اسٹیشن سے مانچسٹر جانے والی ٹرین پر سوار ہوا۔ بہ مشکل اپنی نشست سنبھالی تھی کہ لندن سے ایک دوست نے اطلاع دی ’’مولانا عبدالرشید غازی شہید ہوگئے ہیں ۔‘‘ ایک تیز دھار خنجر میرے دل میں دور تک اُتر گیا۔ ذرا دیر بعد فون کی گھنٹی پھر بجی، اسلام آباد سے کسی نے خبر کی تصدیق کی ۔ میرے اعصاب میری گرفت میں نہ رہے۔ سر آپ ہی آپ نشست سے جالگا۔ آنکھوں میں چنگاریاں سی بھر گئیں ۔ میں نے ضبط کی تمام ترقوت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے آنسوؤں پر قابو رکھالیکن اندر ہی اندر ایسا ساون برسا کہ میری روح تک جل تھل ہوگئی۔ تیز رفتار ٹرین فراٹے بھر رہی تھی۔ میں ٹیک لگائے شیشے سے باہر جھانک رہا تھا۔ بادلوں سے ڈھکا آسمان، سرسبز میدان، ہرے بھرے کھیت، شاداب چراگاہیں ، آزادانہ گھومتے مال مویشی، کسانوں کے روایتی گھر۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور جامعہ حفصہ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں عبدالرشید غازی میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ بڑی محبت سے چائے بنا رہا تھا۔ اصرار کے ساتھ مجھے بسکٹ پیش کررہا تھا۔ مولانا عبدالعزیز مجھے اپنا نقطۂ نظر سمجھا رہے تھے۔ میں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے غازی سے کہا: ’’آپ بھی تو کچھ بولیں !‘‘ اُس نے مسکراتے ہوئے ادب و احترام کے گندھے لہجے میں کہا تھا: ’’دو بڑوں کے سامنے میں کیا بولوں ؟‘‘ مجھے دُکھ ہوا کہ میری بات نہیں مانی گئی۔ پھر میں اس قضیے سے الگ ہوگیا۔ میں نے اس پر بہت کچھ لکھنے سے بھی گریز کیا۔ میرے دل کے کسی دور دراز گوشے میں یہ خدشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا تھا کہ کوئی اَنہونی بھائیوں کے سروں پر منڈ لا رہی ہے۔ میں نے ملاقات والے چھوٹے سے کمرے میں خونِ شہدا کی خوشبو جیسی مہک بھی محسوس کی تھی۔ شایدعبدالرشید غازی کا خیال ہو کہ اسلام آباد کا شہرِ خوش جمال باجوڑ اور ڈمہ ڈولہ جیسی بے آب و رنگ بستیوں سے بہت مختلف ہے۔یہاں دارالحکومت کے عین قلب ِشہر میں خون کی ہولی کھیلنا آسان نہیں ہوگا۔ شاید وہ بھول گیا تھا کہ سفاکی، تہذیب کے کسی قرینے کو نہیں مانتی، رعونت اپنے ضابطے خودبناتی ہے، طاقت کا نشہ، آئین و قانون کے تقاضوں سے ماورا ہوتا ہے۔ درندگی، اخلاقیات کا کوئی پیمانہ نہیں رکھتی اور فتح و کامرانی کا جنوں ، انسانیت کے آداب سے بیگانہ ہوتا ہے۔ خناس، احساس سے عاری ہوتا ہے۔ مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کے بعد اُنہیں ایک بار پھر برقع پہنا کر پی ٹی وی نے جو ڈرامہ تخلیق کیا، اس کے تصور سے بھی گھن آتی ہے۔ اس ڈرامے کا ہدایت کارجو بھی تھا، کم از کم یہ واضح ہوگیا کہ حکمران، حکمت سے عاری ہی نہیں ، ایک عالم دین کو تضحیک و توہین کا نشانہ بنا کر لطف اُٹھا رہے ہیں ۔ مجھے تھوڑی دیر پہلے مولانا فضل الرحمن خلیل کا فون آیا، عبدالرشیدغازی کی خواہش پر اُنہیں شریک مذاکرات کیا گیاتھا۔ وہ گھنٹوں معاملہ سلجھانے کے لئے کوشاں رہے۔ فضل الرحمن خلیل نے بتایا: ’’منگل کو عبدالرشید غازی سے میری آخری بات ہوئی، وہ کہہ رہے تھے… اس وقت میری والدہ کا سر میری گود میں رکھا ہے۔ وہ کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے آخری ہچکیاں لے رہی ہیں ۔ ان کی روح پرواز کرنے کو ہے۔ مجھے بھی شہادت صاف دکھائی دے رہی ہے۔ میری وصیت ہے کہ مجھے میرے شہید والد کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ میری والدہ…‘‘پھر غازی کی سسکیوں کی آواز سنائی دی اور فون بند ہوگیا۔ شہید شوہر کی شہید اہلیہ نے چند لمحوں بعد شہید ہونے والے بیٹے کے زانو پر سررکھے رکھے آخری ہچکی لی۔ معلوم نہیں غازی کا سینہ کس وقت چھلنی ہوا۔