کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 7
چلنے کا نتیجہ ہے جنہوں نے آڑے وقت میں اُنہیں بدترین دھوکہ دیا…!! غازی بردران دین کے مخلص خادم ہیں ، ان کی عظیم الشان خدمات ان کے اسلام سے والہانہ تعلق کا ثبوت ہیں لیکن آج اُمت ِمسلمہ اس عظیم دینی مرکز سے محروم ہے، اپنے عظیم فرزندوں اور بیٹیوں کی شہادت کا زخم لئے ہوئے ہے تو اس میں اس امر کا بھی بڑا عمل دخل ہے کہ اُنہوں نے اپنے اَہداف کو متعین کرنے، دوستوں کو پہچاننے اور اپنی طاقت کا درست تجزیہ کرنے میں لغزش کھائی ہے۔ اس سانحہ میں یہ سبق موجود ہے کہ آج بھی کچھ متشدد تنظیمیں جو حقیقی جدوجہد اور تدریجی مراحل کی بجائے دیگر عوامل پر غیرمعمولی اعتماد اور انحصار کئے بیٹھی ہیں ، اُنہیں اپنے حقیقی اور جائز اَہداف کا معروضی طورپر جائزہ لینا چاہئے۔ اپنی صفوں سے دوست کے روپ میں موجود دشمنوں کو پہچاننا اور ہرصورت اُنہیں الگ کرنا چاہئے، وگرنہ وہ لوگ اُنہیں ایسے مرحلے پر پہنچا کر چھوڑیں گے، جہاں سے واپسی کا راستہ بند اور صرف ہلاکت وبربادی کا راستہ کھلا ہوگا، جس سے زخموں سے چورچور اُمت کے لئے مزید المیے جنم لیتے رہیں گے۔ آج بھی وطن عزیز میں ایسی عسکری تنظیمیں کام کررہی ہیں جنہوں نے اپنے کارکنوں کو عالمی قوتوں کو ذلیل ورسوا کرنے کا غیر حقیقی نعرہ دے رکھا ہے، لیکن خود وہ ایسی حکومتی ایجنسیوں کے رحم وکرم پر ہیں جو صرف استعمال کرنے اور وقت آجانے پر اُنہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے مشن پر مامور ہیں ۔ بالفرض اگر ایسے کسی مقابلے میں کوئی عسکری تنظیم کامیاب ہوبھی جائے تو چونکہ اس کی قوت اس کی اپنی نہیں بلکہ مستعار لی ہوئی ہوتی ہے، اس لئے اس کے نتائج تنظیم کو ملنے کی بجائے وہی لوگ اس کے ثمرات سمیٹ لے جاتے ہیں ، جن کی مصنوعی قوت سے کوئی مقصد پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔اس سلسلے میں معرکہ کارگل کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں بعض عسکری تنظیموں کو بھرپور شمولیت کا دعویٰ ہے لیکن ایسی عسکری تنظیمیں اپنے فرزندوں کے خون کا نذرانہ تو پیش کرتی ہیں ، لیکن ظاہری کامیابی کی صورت میں اس کے نتائج میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ کشمیر کے لئے یہ عسکری تنظیمیں قوم کا جوان خون پیش کرتی ہیں ، لیکن بالفرض کشمیر کا تصفیہ ہوجانے پر وہ اسلام جس کے نام پر یہ سب قربانیاں پیش کی گئیں ، اس کو