کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 66
مقصد آئندہ سیاسی ڈھانچے کی تشکیل ہے جس کو انتہاپسند عناصر سے پاک رکھنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے۔ مشرف آج بھی امریکہ کا بہترین آپشن ہیں ۔ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے پاکستان کے وزیر خارجہ قصوری کو کہا کہ صدر مشرف ہمارے بہترین اتحادی ہیں ، جن کی کوششوں سے پاکستان شدت پسندی کے خاتمے اور اصلاحات میں بہت آگے نکل چکاہے۔
صدر مشرف کے متبادل کے طورپر بے نظیر بھٹوبھی سرگرم ہیں ۔ دونوں بڑھ چڑھ کرعالمی قوتوں کا منظورِ نظر بننے کی جستجومیں ہیں ۔ دونوں کی مشترکہ حکومت کے بعض فارمولے بھی سامنے آرہے ہیں ۔ مثال کے طورپر یہ کہ ملک میں اقتدار بے نظیر حکومت کے سپرد کرکے قومی سلامتی اور دفاعی اُمورمیں مشرف کے ساتھیوں کو موقع دیا جائے اوراس طرح امریکہ کا حمایت اقتدار عالمی مفادات پورے کرنے کے لئے پاکستان کے سر پر ہی مسلط رہے۔ تاہم بے نظیر نے وردی میں ان کو صدر قبول کرنے سے انکارکیاہے، اور ان کی صدارت اُنہیں اسی صورت میں قبول ہے جب وہ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں ٭۔ (نوائے وقت:۳۱ جولائی)
____________
٭ بے نظیر کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ انتخابات سے قبل ڈیل طے کی جائے جبکہ حکومت اسے انتخابات کے بعد طے کرنا چاہتی ہے۔بے نظیرکے تیور اور ارادے ان کے برلن میں دیے گئے بیان سے صاف جھلکتے ہیں جس میں اُنہوں نے یہ قرار دیا ہے کہ ’’پاکستان کے ’انتہاپسند‘ صدر مشرف کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کررہے ہیں، اُنہوں نے شہروں میں قائم اپنے مدارس کو عسکری مراکز میں تبدیل کردیا ہے۔پاکستان میں اسلامی دہشت گردوں کے انقلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے، لال مسجد کا واقعہ تو اس کی محض ابتدا ہے۔‘‘اس پیغام میں حقائق کا مسخ کرنا اور اس کو ذو معنی رخ دینا قابل دید ہے، ساتھ ہی ان کا یہ بھی موقف ہے کہ انہی اسمبلیوں سے صدر کے انتخاب کی صورت میں وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گی۔گویا ان کی نظر میں صدر مشرف کا اقتدار بے نظیر سے قبل از انتخاب مفاہمت اوربلاوردی صدارت کی صورت میں ہی قابل قبول ہے، کوئی اور صورت اُنہیں قبول نہیں۔ یہاں یہ امر بھی خارج از امکان نہیں کہ مشرف اور بے نظیر میں مفاہمت طے پاچکی ہو، البتہ انتخابات میں ق لیگ کے ذریعے مشرف کے حمایت یافتہ اور پیپلز پارٹی کے ذریعے مشرف کے مخالف ووٹ حاصل کرکے بعد از انتخاب حکومتی اشتراک کو روبہ عمل لایا جائے اور ان اخباری بیانات کی حیثیت عوام کو دھوکہ دینے سے زیادہ نہ ہو۔
البتہ دوسری طرف شریف برادران سے کوئی مفاہمت فی الوقت خارج از امکان ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف ۲۵جولائی کو ۱۹۹۷ء میں درج بغاوت کیس کو دوبارہ زندہ کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں، علاوہ ازیں ۳۰ جولائی کو ایوانِ صدر نے سعودی عرب اور امارات میں شریف برادران سے کسی بھی ملاقات اور ڈیل کی پرزور تردید کرتے ہوئے بے نظیر سے مفاہمت اور روابط کی باضابطہ طور پر تصدیق کی ہے۔