کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 63
اُنہیں اقتدار سے محروم کردیا گیا تو وہ کیا متبادل صورت اختیار کریں گے۔ اس مقصد کے لئے ان کی اہلیہ صہبا مشرف ۲۹ صندوقوں کے ساتھ دوماہ قبل امریکہ جانے کے بعد وطن واپس بھی آچکی ہیں ، گویا اس طرح اُنہوں نے اپنے آقاے ولی نعمت کے ہاں اپنے تحفظ کے راستے بھی بنالئے ہیں ۔ پاکستان کے اندر بھی صدر مشرف کو ہرطرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے : ٭ صدر مشرف کو جامعہ حفصہ کے حادثہ کے بعد شدید عوامی اور ابلاغی ردعمل کا سامنا ہے، ایوانِ صدرکو وہ مرکز سمجھا جارہا ہے جہاں سے غازی برادران سے مفاہمت کے بعد اس ہلاکت خیز جارحیت کے احکامات صادر ہوئے۔ جامعہ حفصہ پر ہونے والے ظلم کی تردید میں پوری قوم یک زبان ہے۔ علاوہ ازیں مدارس ومساجد کے خلاف کئی انضباطی اقدامات ،ذرائع آمدن کو بند کرنے کی کوششوں اوربعض مدارس کو تنبیہی نوٹس جاری کرنے نے بھی جلتی پر تیل کاکام کیا ہے۔ مدارس کے خلاف ان اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے قاضی حسین احمد نے اسے ’سول وار‘کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ (نوائے وقت:۳۱ جولائی ) اس سے دین دار طبقے میں شدید رد عمل پیدا ہورہا ہے جو مساجد کے ذریعے اسلام دوستعوام تک پھیلتا جارہا ہے۔ یہ ملک کے اکثریتی طبقے کا عوامی دباؤ ہے ! ٭ عدالت ِعظمیٰ کا فیصلہ حکومت کے لئے غیرمتوقع تھا، اس کے بعد حکومت کے لئے من مرضی کے امکانات محدود ترہوگئے ہیں ۔یہ جدید تعلیم یافتہ اور سول سوسائٹی کے علم بردار کہلانے والوں کا دباؤ ہے جس کی پشت پر ملک کے سب سے اہم ستون عدلیہ کی قوت موجود ہے۔ اس کی قیادت وکلا کررہے ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کی بحالی کو کامیابی کا پہلا زینہ قرار دیتے ہوئے اپنی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم تسلسل سے دہرایا ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر منیر ملک نے کہا ہے : ’’وکلا امریکی ایما پر آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے والوں کے ہاتھ توڑ دیں ، بعض سیاسی جماعتیں امریکہ کے کہنے پر ڈیل کررہی ہیں ، عوام اُنہیں قبول نہیں کریں گے۔ امریکہ بعض سیاسی جماعتوں کے ذریعے مشرف کو لائف لائن دینے کی کوشش کررہا ہے۔ ‘‘ (روزنامہ ایکسپریس: ۳۱جولائی ۲۰۰۷ء، صفحہ اوّل) یوں نظر آتا ہے کہ قاضی حسین احمد کی صدر مشرف کے دو عہدوں پر براجمان رہنے کے خلاف آئینی درخواست اس سمت میں عدلیہ کی جدوجہد کو ایک بامقصد رخ دینے کا کردار ادا کرے