کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 62
علاقوں پر حملہ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرے گا۔ ۱۵/ جولائی کی خبر یہ تھی کہ امریکہ کو اپنی سلامتی کے لئے جہاں کہیں بھی حملہ کرنا پڑا تو اس سے قطعاًگریز نہیں کیا جائے گا۔ادھربرطانوی حکومت نے بھی پاکستان کے دینی مدارس پر ایک بار پھر دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے القاعدہ کے کارکنوں کی بھرتی کے مراکز قرار دیا ہے۔۲۷/ جولائی کے اخبارات میں ایک بار پھر امریکی نائب وزیر خارجہ کی یہ دھمکی جلی سرخیوں سے شائع ہوئی ہے کہ پاکستان کے اندر کاروائی کرنے کا آپشن برقرار رہے گا۔ دوسری طرف صدر بش کے بالمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی اُمیدوار بارک اوباما نے بھی قرار دیا ہے کہ ’’اصل میدانِ جنگ عراق نہیں ، پاکستان ہے۔ امریکہ وہاں القاعدہ پر بلا جھجک حملے کرے۔ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو عراق سے فوجیں نکال کر حقیقی میدانِ جنگ پاکستان بھیجیں گے، اس سلسلے میں اسلام آباد کے کسی احتجاج کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ پاکستان کو ہرصورت دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا، وگرنہ وہ امریکی امداد کے خاتمے اور حملے کے لئے تیار رہیں ۔‘‘ گویا پاکستان پر حملے کے بارے میں صدر بش کی ری پبلکن پارٹی اور ان کے مقابل ڈیموکریٹک پارٹی دونوں میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے جو امریکی عوام اور دانشوروں کی متفقہ رائے کا غماز ہے، اور اس کی مخالفت کرنے والا عہدۂ صدارت حاصل نہیں کر سکتا!! امریکہ کے اس نئے رجحان کے بعد جہاں پاکستان ایک بار پھر عالمی طورپر شدید مشکلات کا سامنا کررہا ہے، وہاں پاکستان کو اس مرحلے پر پہنچانے والے صدر مشرف بھی اپنے غاصبانہ اقتدار کے مشکل ترین ایام سے گزر رہے ہیں ۔ یوں تو حکومت نے فوری طورپر ملکی خود مختاری کے اظہار کے لئے اس نوعیت کے امریکی بیانات پر شدید ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے اُسے قومی اُمور میں دخل اندازی قرار دیا ہے اور بعض ذرائع کے مطابق اپنی فوج کو مداخلت کرنے والوں کو روکنے کے احکامات صادر کئے ہیں لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی حکومت کا سفارتی ردّ عمل توقع اور ضرورت سے انتہائی کم ہے۔ امریکی دھمکی کا مقصد اور ہدف اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ صدر مشرف ان دنوں ہمہ نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں اور وہ اپنے عرصۂ اقتدار کی کمزور ترین پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں ۔ گاہے بگاہے تبدیلیوں اور اپنے ساتھیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ وہ ان اِمکانات پر بھی غور کررہے ہیں کہ اگر