کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 55
و بصیرت کے فقدان کا ایک رد عمل ہے جو اس شکل میں ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔‘‘[1]
ذوقِ دشنام طرازی کو ایک فن بناکر طعن و تشنیع، طنز و استہزا اور تضحیک کی وہ تیسری خدمت ہے جو تقسیم کار کے اُصول سے اس ادارہ (طلوع اسلام) نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ چنانچہ کتاب کے ساتھ سنت کو بھی دینی حیثیت باور کرنے والے دین دار طبقہ اور اسلام اور شعائر اسلام کی توہین و تذلیل کی خاطر جو ایک اصطلاح ’ملا اور ملائیت‘ کی وضع کی گئی ہے، اس اصطلاح کی آڑ میں دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے، اس فن دشنام طرازی کی بے محابا نمائشیں کی جاتی ہیں :
’’یہ تیسری خدمت اس لئے بھی پوری دلچسپی کے ساتھ ایک مہم کے انداز میں انجام دی جارہی ہے کہ اخلاقی بضاعت کے افلاس پر فریب و ریا کے پردے ڈالے جائیں ، اور احساسِ کمتری کے جو یہ حضرات شکار ہیں تو اس باب میں تسکینِ خاطر کے کچھ سامان فراہم ہوسکیں ۔
اس کے علاوہ علم و فن میں اپنی ناپختہ کاری کی پردہ پوشی بھی اس تیسری خدمت کے پس پردہ مطلوب ہے۔‘‘[2]
اب رہا قرآن جسے پیغمبر قرآن سے منقطع کرکے ہتھیایا گیا ہے تو اس کی تشریع و توضیح اور تفسیر و تفصیل اس ’عقل عیار‘ کی روشنی میں کی گئی ہے جو مغربی علمیات کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی ہے، اور جسے ’مفکر قرآن‘ صاحب اپنی ’قرآنی بصیرت‘ کہا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے نام سے اُنہوں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے، وہ فرنگی معاشرت اور مارکسی اشتراکیت میں بغیر کسی قرآن کے پہلے سے ہی موجود ہے۔ ان دونوں مآخذ سے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑہ لے کر’مفکر ِقرآن‘ صاحب نے ، بھان متی کا وہ کنبہ جوڑا ہے جسے وہ ’قرآنی اسلام‘ کہا کرتے تھے۔ قرآن کے نام پر متفرق اجزاے کفر کو مشرف بالاسلام کرنا ان کی وہ ’عربی سازش ہے‘ ہے جسے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کے لئے ’عجمی سازش‘ کے پراپیگنڈے کی دُھول اُڑائی جاتی ہے۔
[1] فتنۂ انکار حدیث کا منظر و پس منظر، حصہ سوم، صفحہ ۲۹
[2] فتنۂ انکار حدیث کا منظر و پس منظر، حصہ سوم، صفحہ ۴۴۰