کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 54
سمجھتے تھے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے (بقولِ طلوع اسلام) یہ فرمایا تھا کہ ’’ایک ضعیف حدیث، اگر کسی مضمون کے بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کے ضعف ِسند کی بنا پر اس کا حکم بھی ضعیف ہوجاتا ہے، لیکن اگر متعدد ضعیف احادیث ایک مضمون کے بیان کرنے میں متفق ہوں تو چاہے ان میں سے ہر ایک فرداً فرداً بلحاظِ اسناد کتنی ہی ضعیف ہو، ان کا مشترک مضمون قوی ہوجاتا ہے۔‘‘[1] ’مفکر ِقرآن‘ نے اگر واقعی علم حدیث کا (تحقیقی نہ سہی) سرسری مطالعہ ہی کیا ہوتا، تو اُنہیں معلوم ہوجاتا کہ ضعیف حدیث کامعنی ’غلط حدیث‘ نہیں ہے بلکہ وہ حدیث مراد ہے جس میں صحیح حدیث کی شرائط ِخمسہ میں سے بعض شرائط مفقود ہوں ۔ لفظ ضعیف کا سادہ مدلول ہی یہ واضح کردیتا ہے کہ اس کا مفہوم ’کمزور‘ ہونا ہے، نہ کہ ’غلط‘ ہونا۔ لیکن منکرین حدیث کا یہ ’علامہ و فہامہ مفکر قرآن‘ ضعیف حدیث کو غلط حدیث کا ہم معنی قرار دیتے ہوئے اپنے جاہل قارئین اور اندھے مقلدین کے سامنے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ اُصولِ حدیث پر یوں تبصرہ اور نکتہ آرائی کرتا ہے : ’’غور فرمایا آپ نے اس اُصول پر کہ غلط بات، اگر ایک جگہ لکھی ہوئی ملے تو وہ غلط ہوتی ہے، لیکن اگر وہ دس جگہ لکھی ہوئی ہو تو اسے صحیح سمجھنا چاہئے۔‘‘[2] اس ’علامہ دہر‘ کی فن حدیث کے بارے میں علمی بے بضاعتی کی یہی وہ حالت ہے جس کے باعث وہ احساسِ کمتری کا شکار تھے، اور جو اُنہیں اس امر پر مجبور کرتی رہی ہے کہ وہ اپنے علمی افلاس کی کسر کو پورا کرنے کے لئے اپنے مخالفین کے خلاف طعن و تشنیع اور استہزاء و تضحیک کی کثرت سے کام لیں ۔’ طلوعِ اسلام‘ اور پرویز صاحب کی اس نفسیات کو جناب افتخار احمد بلخی مرحوم نے باٖیں الفاظ خود واضح کیا ہے : ’’رہی تیسری خدمت یعنی ذوقِ دشنام طرازی کی تسکین اور اس کے مقتضیات سے عہدہ برآ ہونے اور اخلاقی بضاعت کے افلاس پر فریب و ریاء کے پردے ڈالے جانے کی خاطر جو گالیوں کو باضابطہ ایک ’فن شریف‘ بنا کر پیش کئے جانے کی صورت میں پوری سرگرمی کے ساتھ انجام دی جارہی ہے، وہ دراصل اس دور ترقی و تجدد کا ایک مرض ہے جس کے متواتر و پیہم دورے پڑتے رہتے ہیں ۔ اس مرض کو آپ ’مالی خولیا‘ کے نام سے یاد کرسکتے ہیں ۔ اس مرض کی علت وہ احساسِ کمتری ہے جو تحت الشعور میں جاگزیں ہے یا کتاب و سنت میں درک
[1] ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۶۰ء، صفحہ ۲۴ بحوالہ طلوع اسلام، ستمبر ۱۹۶۰ء، صفحہ ۷۰ [2] طلوع اسلام، ستمبر ۱۹۶۰ء، صفحہ ۷۰