کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 51
نے ہی رکھی تھی۔ کب؟ جب (بقول پرویز صاحب) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اُنہوں نے مدینہ سے باہر جانے کی کھلی چھٹی دے دی تھی اور وہ مختلف شہروں میں گھومتے پھرتے تھے : ’’اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روز مرہ کے معاملات کے متعلق لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ روایات کو معمولی بہانا بنانے لگ گئے اور نمائندگانِ حکومت کے فیصلوں کا دائرہ سمٹتے سمٹتے انہی اُمور تک محدود ہوکر رہ گیا جن کا تعلق سلطنت کے انتظامی اُمور سے تھا۔ اس سے نہ صرف اجتماعیت کی جگہ انفرادیت ہی آگئی، بلکہ اس سے دین و دنیا کی ثنویت کی پہلی اینٹ بھی رکھی گئی جس نے آگے چل کر وہ تباہی پیدا کی جس سے مسلمان اس وقت تک نہیں پنپ سکا۔‘‘[1] حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فردِ اعمال میں ہمارے ’مفکر قرآن‘ صاحب یہ جرمِ بے گناہی صرف اس لئے ڈال رہے ہیں کہ اپنا ’اُلو‘ سیدھا کرسکیں اور ایسا کرنے کے لئے اُنہیں کبھی بھی مسخ حقائق ، تقلیب ِاُمور یا تنکیسِ واقعات میں دریغ نہیں ہوا۔ خلافت ِراشدہ کے بعد دین و دنیا میں جس ثنویت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، وہ کسی مفسر قرآن ، محدثِ ذی اکرام، فقیہ ِذی شان یا عالم دین کی پیدا کردہ نہیں تھی بلکہ اس دور کے ’مرکز انِ ملت‘ کی ایجاد تھی۔ لیکن پھربھی علماے کرام پورے اسلام کوبلا کم و کاست پیش کرتے رہے ہیں اور اُمت مسلمہ میں مرورِ ایام کے ساتھ جو مسائل بھی پیدا ہوئے وہ اُنہیں مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ قرآن و سنت کی بنیاد پر حل کرتے رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ زمانہ نے کروٹ بدلی اور امت میں روحِ اجتہاد اور جذبۂ جہاد سرد پڑتا چلا گیا۔ شاید یہ صدیوں کی حکومت کے بعد تھک کر سو جانے کا نتیجہ تھا اور جب یہ غفلت کے ماتے، نیند سے بیدار ہوئے تو مسیحی یورپ سیف و قلم کے ساتھ عالم اسلام پر دھاوا بول رہا تھا اور مسلمانوں کی بستیاں پے درپے کفار کے قبضہ میں جارہی تھیں ۔ مغرب کی غالب اور مستولی اقوام اپنے مقبوضات میں اپنی تہذیب و معاشرت اور اپنا فکرو فلسفہ رائج کرنے کے لئے نظامِ تعلیم کے ساتھ ساتھ پورا نظامِ حیات لے کر آئے تھے جس کے نتیجہ میں مفتوح اقوام کے خیالات اور طبائع میں عظیم الشان انقلاب واقع ہوا۔ جدید تعلیم اور جدید تہذیب نے اسلام اور اس کے اُصول و قوانین میں قرآن اور اس کی تعلیمات، سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی ہدایات میں شکوک و شبہات پیداکردیئے جو قلب و روح میں بے چینی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ ایمان وعمل میں بھی اضمحلال کا باعث بن گئے۔
[1] طلوع اسلام، اکتوبر ۱۹۵۳ء، صفحہ ۳۰