کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 50
اولاً… یہ کہ قرآن و سنت پر اساس پذیر جس دین کے علماے کرام علمبردار ہیں وہ دین چونکہ ’مفکر قرآن‘ صاحب کے اس مذہب سے کلی منافات رکھتا ہے جس کے معاشی نظام کو اشتراکیت سے اور معاشرتی طور طریقوں کو تہذیب ِمغرب سے قرآنِ کریم کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا گیاہے۔ اس لئے قرآن و سنت پر مبنی اسلام کی مخالفت کے لئے ’ملا‘ اور ’ملائیت‘ کی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں تاکہ اسلامی شعائر اور دینی ثقافت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے لئے ان اصطلاحی الفاظ سے پردے کاکام لیا جائے اور کھلے عام دین اور اسلام کا نام لے کر اسے مطعون کرنے کی بجائے ’ملائیت‘ کی آڑ میں اسے نشانہ بنایا جاسکے۔ ثانیاً… یہ کہ ’مصلحت‘ اور ’حسن تدبیر‘ کا بھی یہی تقاضا تھا کہ براہِ راست اسلام اور اس کے مبادیات و مبانی اور اس کے ثقافتی علامات و آثار کو نشانہ نہ بنایا جائے تاکہ مسلمان، مشتعل نہ ہونے پائیں ۔ اس لئے اسلام سے تنفر اور گریز پیدا کرنے کے لئے حکمت ِعملی یہ اپنائی گئی کہ اس کی ایک ایک چیز کومطعون تو کیا جائے، لیکن اسلام کے نام پر نہیں بلکہ ’ملائیت‘ کے نام پر ایسا کیا جائے۔ ثالثا ً… یہ کہ چونکہ قرآن و سنت پر مبنی اسلام کے علمبردار علماے کرام ہیں ۔ اس لئے عامۃ الناس کو ان سے برگشتہ کرنے کے لئے جس اصطلاح کو کارگر سمجھا گیا، وہ ’ملا‘ کی اصطلاح تھی۔ اس لفظ میں سارے جہاں کی نفرتوں کو سمیٹ کر اسے ہر اس عالم دین پر چسپاں کردیا گیا جو پرویزی نظریات کا مخالف اور قرآن و سنت کا شیدائی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ ’ملا‘ قرآن سے جاہل ، کتاب اللہ کا منکر، فہم و فراست سے عاری، عقل ودانش کا دشمن اور تقاضاے وقت سے نابلد ہے اور کبھی دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے، اس لفظ کو کسی گندی اور گھناؤنی صفت کا موصوف بنا کر مرکب ِتوصیفی کی صورت میں پیش کیا گیا۔ مثلاً کوڑھ مغز ملا وغیرہ۔ پھر اس لفظ (ملا) کی کمان سے جو تیر اندازی کی جاتی ہے، اس کا نشانہ اور ہدف صرف دورِ حاضر کے علماے کرام ہی نہیں بنتے ہیں بلکہ سلف و خلف کے جملہ اکابرین تک اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی اس تیرافگنی کا شکار ہوجاتے ہیں ، کیونکہ دین و دنیا کی تفریق اور ثنویت کے نتیجہ میں ’ملائیت‘ کی جو عمارت آج منکرینِ حدیث کو دکھائی دے رہی ہے اس کی پہلی اینٹ اُنہوں