کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 5
میں جھونک دیتے ہیں جہاں سے نتائج کا حصول مزید دور ہوجاتا ہے۔ اسلامی تحریکوں کے پاس قوم کا اعتمادایک بہت بڑی امانت ہے۔ آج بھی لوگوں میں اُنہیں غیرمعمولی قدرومنزلت سے دیکھا جاتا اور قوم کے محسن سمجھا جاتا ہے۔ ان اداروں کو اپنے مقاصد کے تعین میں کسی ردعمل کا بھی شکار نہیں ہونا چاہئے جہاں وہ غصہ نکالنے یا نیچا دکھانے کی منفی نفسیات سے مغلوب ہوجائیں ۔ ہردم اپنی قوتِ کار کا صحیح ادراک رکھتے ہوئے اپنی طے کردہ منزل کی طرف ہی قدم اُٹھنے چاہئیں ۔ بعض اوقات اسلامی تحریکیں خود توکسی مغالطے یا ردّ عمل کا شکار نہیں ہوتیں لیکن ان کے ساتھ شریک ہونے والے ان کی صلاحیت کو دوسری سمت موڑدینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ اداروں اور تنظیموں کے ذمہ داران کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ اپنے ساتھ شامل ہونے والے افراد پر بھی کڑی نظر رکھیں ، ان کی سرگرمیوں کا جائزہ رکھتے ہوئے ایک طے شدہ مثبت سمت میں ہی ان کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں ۔ پاکستان کے عوام دین سے گہری وابستگی رکھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان دینی تحریکوں کا ایک بڑا مرکزہے۔بعض دینی تحریکیں ان حالات میں مرحلہ وار جدوجہد کی بجائے ایسا راستہ اختیار کرنے کی طرف مائل ہوجاتی ہیں جہاں وہ کسی خارجی مدد سے جلد اپنی منزل کو حاصل کرلیں ۔ اس مقصد کے لئے بعض تنظیموں کے ہاں سرکاری شخصیات سے راہ ورسم _________________ ٭ بعض لوگ غزوۂ بد ر میں ۳۱۳ مسلمانوں سے کفا رکے عظیم لشکر کا مقابلہ کرنے کی مثال دیتے ہیں تویہ درست نہیں،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ سے ہمیں اس کے برعکس رہنمائی ملتی ہے۔ دعوت کے میدان میں آپ کی حکمت ِعملی بھی وہی ہے جس کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثاروں کے ساتھ اس بیت اللہ میں ہی ۱۳سال نماز پڑھتے رہے جہاں ۳۶۰ بت موجود تھے۔ آپ کے جانثار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی کسی رات جاکر ان بتوں کو اللہ کے گھر سے ہٹا نے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا لیکن قوت کے ایسے استعمال کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تلقین نہ کی بلکہ اس کے لئے مناسب وقت کا انتظار کیا۔ جہاں تک غزوۂ بدر وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ بات سیرتِ نبویؐ کے ہر طالبعلم کو بخوبی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ غزوات اِقدامی کاروائی نہیں بلکہ غیروں کی مسلط کی ہوئی جنگ تھی۔ اور غیروں کی مسلط کی ہوئی لڑائی میں اور خود اختیار کردہ حالات میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ دین میں گہری بصیرت رکھنے والے لوگ اسلام کے اس رجحان سے بخوبی آگاہ ہیں !