کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 48
نہیں بتا سکتا۔ تمہیں میرے پاس آنے کی بجائے ، خلیفۂ ثالث کے پاس جانا چاہئے جو ’مرکز ملت‘ کی حیثیت سے آج کا ’اللہ اور رسول‘ ہے، کیونکہ وہی ’نمائندگان ملت کے اجتماعی اجتہاد‘ کے ذریعہ تمہیں حکم شریعت بتانے کا مجاز ہے‘‘ … اور اس پر مستزاد استعجاب بالائے استعجاب یہ امر ہے کہ لوگ بھی ان ’ملاؤں ‘ کی ’مذہبی پیشوائیت‘ کو قبول کئے ہوئے تھے اور کسی بھی ’مفکر قرآن‘ نے اُس دور میں ان رفیع المرتبت صحابہ کرام کو یہ نہیں بتایا کہ ’’ مذہبی پیشوائیت کا تصور ہی قرآن و سنت کے خلاف ہے۔‘‘[1] اب ایک طرف تو یہ کچھ کہا جاتا ہے اور دوسری طرف بڑے دھڑلے سے خلافت ِراشدہ کی خوبی ہی یہ بتائی جاتی ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت ِراشدہ کے زمانہ میں مذہبی پیشوائیت کا نام تک نہیں ملتا۔‘‘[2] اس اقتباس میں مذہبی پیشوائیت کے وجود کی نفی عہد ِرسالت مآب اور خلافت ِراشدہ دونوں کے اَدوار میں کی گئی، لیکن ’مفکر قرآن‘ نے ایک اور جگہ عہد نبوی میں غیر متعدی ’مذہبی پیشوائیت‘ کے وجود کا یہ کہہ کر انکشاف کیا ہے کہ ’’اس وقت جو کچھ اسلام کے نام سے پیش کیا جاتا ہے ، اسے قرآن کے ترازو میں تول کر دیکھ لیا جائے۔ جو کچھ اس پر پورا اُترے، اسے صحیح سمجھ کر اختیار کرلیا جائے اور جو کچھ غلط ثابت ہو اسے مسترد کردیا جائے۔ لیکن مذہبی پیشوائیت نہ نزولِ قرآن کے زمانہ میں اس کے لئے آمادہ ہوئی تھی نہ اب آمادہ ہوگی۔‘‘[3] رہا خلافت ِراشدہ کا دور تو دین ودنیا میں تفریق و ثنویت کا دروازہ (جس کے نتیجہ میں ’ملائیت‘ اور ’ملوکیت‘ پیدا ہوئی) کھلا ہی دورِ عثمانی میں تھا جس کا حوالہ مع اقتباس آگے آرہا ہے۔ ثالثا ً … یہ کہ ہمارے ’مفکر قرآن‘ کا اپنا طرزِعمل بھی ’خلاف ِقرآن‘ تھا اور ملائیت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ وہ خود نہ تو پاکستان میں ملت ِاسلامیہ کے ’مرکز ِملت‘ تھے اور نہ ہی یکے از ’نمائندگانِ ملت‘ تھے۔ وہ اس کے باوجود اپنے ’انفرادی اجتہاد‘ ہی سے لوگوں کو ان کے پیش آمدہ مسائل کا شرعی حکم بتایا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لئے اُنہوں نے طلوع اسلام میں ’باب
[1] خلاصۂ عبارت، طلوع اسلام، اپریل ۱۹۵۹ء، صفحہ ۱۲ [2] طلوع اسلام، مارچ ۱۹۶۷ء، صفحہ ۳۲ [3] طلوع اسلام، اگست ۱۹۷۳ء، صفحہ ۳۵