کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 47
شہادت کے وقت اللہ کو اپنے جن اعمال پر شاہد بنایا تھا ان میں ایک تعلیمِ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی تھا: قال اللھم إني أشھدک علی أمراء الأمصار فإني إنما بعثتھم لیعلموا الناس دینھم وسنۃ نبیھم… [1] ’’(عمر رضی اللہ عنہ نے ) کہا ’’خدایا! میں تجھ کو ملکوں کے حکام پر گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میں نے ان کو اس لئے بھیجا تھا کہ وہ لوگوں کو ان کا دین اور ان کے نبی کی سنت سکھائیں …‘‘ اگر کسی جگہ کا حکمران دینی بصیرت کے اعتبار سے یا سیرت کے لحاظ سے ان اصحابِ علم وتفقہ سے کمتر ہوتا، تب بھی عقل اسے باور کرنے سے گریز کرتی ہے کہ صاحب ِمعاملہ، فہم وفراست والے علما کو چھوڑ کر اُسی خام بصیرت حکمران ہی سے اپنے مسائل کا شرعی حل دریافت کرتا۔ محض اس لئے کہ حکمران ہی ’نمائندگانِ ملت کے اجتماع‘ پر مبنی شرعی حکم دینے کا مجاز تھا اور علما کا شرعی مسئلہ بتانا، اوّلاً انفرادی حیثیت سے ہوتا۔ ثانیاً ’قرآنیت‘ کے مخالف ہوتا، ثالثا ً ’ملائیت‘ کے مطابق ہوتا۔ مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد ِحکومت میں کوفہ کا گورنر ولید بن عقبہ بن ابی معیط تھا جو علم و عمل کے اعتبار سے اسی مقام پر موجود حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جیسے بلند پایہ صاحب ِعلم و فضل اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت فروتر تھا، ایسی صورت میں : ’’وہاں اگر کسی کو کوئی اہم معاملہ پیش آتا ہوگا تو وہ اس معاملہ کے متعلق شریعت کا حکم پوچھنے کے لئے حضرت عبداللہ بن مسعود، سعد بن ابی وقاص یا ابوموسیٰ اشعری جیسے صحابۂ کبار کی طرف رجوع کرتا ہوگا یاولید بن عقبہ کی طرف؟ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لئے کوئی شخص ولید بن عقبہ کی طرف نہیں جاتا تھا بلکہ سب مسلمان ان عظیم المرتبہ حضرت صحابہ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔‘‘[2] حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم جنہوں نے براہِ راست قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا، قرآن کا اتنا فہم بھی نہیں رکھتے تھے جتنا ہمارے ’مفکر قرآن‘ صاحب کو حاصل ہے، اور وہ ہر آنے والے کو اس کے ہر معاملے کا حکم شریعت’انفرادی طور پر‘ بتاتے رہے، حالانکہ نہ وہ ’مرکز ملت‘ تھے، اور نہ ہی ’نمائندگانِ اُمت‘ تھے اور کبھی کسی پوچھنے والے کو یہ نہیں کہا کہ ’’… بھائی! ’قرآنی حکومت‘ میں ، میں انفرادی اجتہاد کے ذریعہ تمہیں حکم شریعت
[1] ابن سعد، ج۳، ق اوّل، صفحہ ۲۴۳ [2] طلوع اسلام، اکتوبر ۱۹۵۳ء، صفحہ ۳۰