کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 45
جدید لہر کے ساتھ بدل جایا کرتی تھیں ۔ پھر یہ تعریفات کسی بے لاگ تجزیہ کے بعد علمی تحقیق پر مبنی نہیں ہوا کرتی تھیں ، بلکہ یہ کسی ’مُلاّ‘ یا اس کے حلیہ یا اس کے طرزِعمل کے رد عمل پر موقوف ہوا کرتی تھیں ۔ علماے کرام چونکہ اتباع سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داڑھی رکھنے کے عادی ہیں ، اس لئے ایسے باریش علما کا کسی ایک جگہ اس طرح مجلس منعقد کرنا کہ اس میں کوئی بے ریش فرد نہ ہو،’مفکر قرآن‘ کے نزدیک ’پریسٹ ہڈ‘ قرار پاتا تھا۔ چنانچہ اسلامی دستور کے خاکہ کی تیاری میں اکتیس علما کا جو اجتماع کراچی میں منعقد ہوا تھا، اس کے ’پریسٹ ہڈ‘ ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس میں کوئی ایک فرد بھی بے ریش نہ تھا، سب کے سب داڑھی والے تھے : ’’خود ان اکتیس علما کی فہرست کو اُٹھا کر دیکھئے جنہوں نے کراچی میں اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کیا تھا، اور جو آج کل دستور سے متعلق تنقیدی بحث کے لئے پھر کراچی میں جمع ہوئے ہیں ۔ کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کسی دینی درس گاہ کی باضابطہ سند نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجود وہ دین میں Authorityکا درجہ رکھتے ہیں ۔ اس کے برعکس اس فہرست میں کسی ایک داڑھی منڈے کا بھی نام نہیں ہے ’پریسٹ ہڈ‘ ۔‘‘[1] ایک اور مقام پر ملائیت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’ملائیت کے معنی یہ ہیں کہ دین کے احکام کے لئے، نظامِ اسلامی کے مرکز کی طرف رجوع کرنے کی بجائے، افراد کی طرف رجوع کیا جائے اور یہ حق نمائندگانِ ملت کو نہ دیا جائے، بلکہ دوسرے افراد کو دیا جائے کہ وہ ملت کے لئے شریعت کا قانون مرتب کریں ، یہ ہے پیشوائیت یا ملائیت ۔‘‘[2] اب ظاہر ہے کہ ملائیت کے بالمقابل ’قرآنیت‘ یہ ہے کہ ’’احکام دین کے لئے قرآن سے استنباط و استخراج کیا جائے اور یہ کاوش بھی انفرادی نہیں بلکہ نمائندگانِ ملت کی اجتماعی کاوش ہوگی۔‘‘[3] تین قابل غور اُمور یہاں تین باتیں قابل غور ہیں :
[1] طلوع اسلام، فروری ۱۹۵۳ء، صفحہ ۱۷ [2] طلوع اسلام، اکتوبر ۱۹۵۳ء، صفحہ ۳۶ [3] خلاصۂ عبارت ماخوذ از طلوع اسلام، مئی ۱۹۵۲ء، صفحہ ۵۹+ اکتوبر ۱۹۵۳ء ،صفحہ ۲۳