کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 44
پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :
’’جس زمانے میں ہماری مذہبی پیشوائیت ذی اقتدار تھی، مسئلہ تقدیر کے ضمن میں خونِ مسلم کی جس قدراَرزانی ہوئی اور باہم قتل و غارت گری اس فتنۂ ارتداد کو دبانے کے لئے روا رکھی گئی، اس کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے۔‘‘[1]
اب معلوم نہیں کہ ’مفکر قرآن‘ صاحب اگر زندہ ہوتے تو ان سوالات کا کیاجواب دیتے کہ مذہبی پیشوائیت کس دور میں ’ذی اقتدار‘ تھی؟ کس سرزمین میں ’ذی اقتدار‘ تھی؟ وہ کون سی تھیاکریٹک شخصیت تھی جو’ذی اقتدار‘ تھی؟ مذہبی پیشوائیت کے ’ذی اقتدار‘ ہونے کا سن وسال کیا تھا؟ اور اُس ’ملا‘ کا نام کیا تھا جو ’ذی اقتدار‘ تھا؟
حقیقت یہ ہے کہ خلافت ِراشدہ سے لے کر دورِ حاضر تک کبھی کوئی عالم دین ، کوئی مفسر قرآن، کوئی محدثِ ذی شان اور کوئی فقیہ عالی مقام، کسی مقام پر کبھی بھی’ذی اقتدار‘ نہیں رہا۔ یہ صرف’ مفکر قرآن‘ کا اپنا خود ساختہ جھوٹ ہے جس کی کوئی تائید، مسلمان کی تاریخ کی کسی گری پڑی کتاب سے بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔ ہم اس کذب ِ خالص کانرا جھوٹ ہونا، طلوعِ اسلام ہی کے اوراق سے پیش کئے دیتے ہیں تاکہ اس دروغ بے فروغ پر ایمان لانے والے اس تحریر کے آئینے میں ’مفکر قرآن‘ کا سراپا ملاحظہ فرما سکیں :
’’چودہ صدیوں میں کبھی بھی مسلمانوں نے مولویوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں دی۔ اس لئے کہ وہ حکومت چلانے کی ضروری تربیت سے محروم تھے۔‘‘[2]
اس سے اندازہ لگائیے کہ یہ ’مفکر ِقرآن‘ جھوٹ بولنے میں کس قدر جری اور جارح واقع ہوئے ہیں ۔ نازیوں کے گوئبلز بھلا ہمارے اس ’قرآنی گوئبلز‘ کا کیا مقابلہ کرسکتے ہیں ؟
مذہبی پیشوائیت ہے کیا؟
اب اس کے بعد یہ بھی دیکھ لیجئے کہ مذہبی پیشوائیت کی تعریف (Definition)بیان کرنے میں وہ کس طرح دور کی کوڑی لاتے رہے ہیں ۔ چونکہ یہ اصطلاح ان کی اپنی خود ساختہ تھی، اس لئے اس کی تعریف بھی ان ہی کے نہاں خانۂ دماغ کی پیداوار تھی۔ چونکہ ان کے دماغ میں ہر آن خیالات و گمانات کی نئی لہریں اُٹھتی رہتی تھیں ، ا س لئے یہ تعریفات بھی ہر
[1] طلوع اسلام، نومبر ۱۹۸۱ء، صفحہ ۴۷
[2] طلوع اسلام، اگست ۱۹۸۱ء، صفحہ ۲۹