کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 43
ہیں ۔ اپنے مخالفین کے خلاف ’مرکزانِ ملت‘ کے ذریعہ وہ کچھ کرتے رہے ہیں جو ان کے نفس حسد پرست کی تسکین کا ذریعہ بن سکے۔ لیکن یہ سب کچھ کرڈالنے کے بعد ذرا اس دیدہ دلیری کو بھی ملاحظہ فرمائیے۔جس کے ساتھ بڑی بلند آہنگی کے ساتھ یہ جھوٹ بھی بولا جاتا ہے کہ ’طلوع اسلام‘ اپنے خوے ’حق گوئی‘ کو قائم رکھنے کے لئے اقتدار کے ایوانوں سے دور رہا ہے : ’’تشکیل پاکستان کے بعد بھی اُس نے اربابِ حل و عقد کو ہر دوراہے پر للکارا، اور اُنہیں قرآن کے تجویز کردہ صراط ِ مستقیم کی طرف دعوت دی۔ وہ ان کی بارگاہوں سے دور دور رہا تاکہ وہاں کی سحر انگیز فضائیں ، اس کے جذبۂ حق گوئی و بے باکی کو نرم خیز نہ بنا دیں حتیٰ کہ یہ ملک کی عملی سیاسیات سے بھی کنارہ کش رہا۔‘‘[1] ’مفکر قرآن‘ کا کذب ِخالص بعض اوقات’مفکر ِقرآن‘ صاحب انتہائی متانت و سنجیدگی سے ، از حد وقار و شائستگی، نہایت سلیقہ و قرینہ اور بکمال اعتماد و وثوق سے ایساجھوٹ بولا کرتے تھے کہ ناواقف آدمی تو فوراً ہی اسے سچ سمجھ لیتا۔ مگر حقیقت ِحال سے شناسا شخص وقف ِحیرت و استعجاب ہوجاتا اور یہ سوچنے لگ جاتا کہ کتاب اللہ کا یہ’مفسر‘ اور قرآنِ کریم کا یہ ’مفکر‘ کس قدر دیدہ دلیری اور دھڑلے سے جھوٹ بولتا ہے۔ اسے نہ آخرت میں اللہ کے ہاں اپنی جوابدہی کا احساس ہے اور نہ دنیا میں مخلوق ہی سے شرم و حیا کا پاس ہے۔ پھر وہ محض بولتا ہی نہیں کہ الفاظ کے پھاگ، ہوا میں تحلیل ہوجائیں اور اس جھوٹ کا نام و نشان ماسواے اس کے اپنے نامہ اعمال کے کہیں باقی نہ رہے، بلکہ اسے ضبط میں لاکر صفحۂ قرطاس پر محفوظ بھی کرڈالتا ہے۔ ’مفکر قرآن‘ صاحب کے ایسے اکاذیب و اباطیل یوں تو ہر عنوان اور ہر پہلو سے موجود ہیں ، لیکن یہاں موضوع کی مناسبت سے ان کا ایسا جھوٹ پیش کیا جارہا ہے جو قطعی بے اصل، بے بنیاد اور بے حقیقت ہے اور جس میں صداقت کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ ’مذہبی پیشوائیت‘ کے ظالمانہ اور مستبدانہ اقتدار کی قباحت و شناعت کی نہایت گھناؤنی تصویر
[1] طلوع اسلام، جنوری ۱۹۷۱ء، صفحہ ۸