کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 41
اُنہیں پسند آئی اور پھر اُنہوں نے چاہا کہ یہ سوچ دور دور تک پہنچنی چاہئے، چنانچہ مجھے یاد ہے کہ فوج میں ایک باقاعدہ مراسلہ آیا جس میں طلوعِ اسلام کی فکر کو سمجھنے اور عام کردینے کی ترغیب دی گئی تھی۔‘‘[1] ایوب خاں کو جماعت ِاسلامی کے خلاف مشورۂ پرویز ’مفکر ِقرآن‘ جناب غلام احمد پرویز صاحب کو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور جماعت ِاسلامی کے خلاف جو کینہ و کدورت، بغض و حسد، عداوت و عناد اور حقد و تعصب تھا، وہ ہر اُس شخص پر عیاں ہے جس نے سرسری طور پر بھی’ طلوعِ اسلام‘ کی فائل پرنظر ڈالی ہو۔ وہ جماعت ِاسلامی اور اس کے بانی کی مخالفت میں اس قدر پرجوش اور سرگرمِ عمل تھے کہ پاکستان بننے کے بعد شاید ہی ’طلوعِ اسلام‘ کا کوئی ایسا پرچہ ہو جس میں جماعت اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی بالواسطہ یا بلا واسطہ مخالفت نہ کی گئی ہو۔ وہ جماعت کو’ میکیاولی سیاست کے علمبردار‘ اور’ شریعت کے نقاب میں روباہ باز جماعت کہا کرتے تھے اور اسے مرزائیوں سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا کرتے تھے، عداوت و مخالفت جماعت کی آگ، ان کے سینہ کی بھٹی میں ہر وقت بھڑکتی رہتی تھی۔ ان کا دماغ جماعت کے خلاف آتش غضب و عداوت میں ہر وقت کھولتا رہتا تھا۔ اس جماعت کے متعلق اگر ’مفکر قرآن‘ صاحب ایوب خاں جیسے ہمہ مقتدر حکمران کو مشورہ دیں تو وہ یقینا کوئی خیرخواہانہ مشورہ نہیں ہوسکتا بلکہ بغض و عناد کے زہر میں بجھاہوا ہی کوئی مشورہ ہوسکتا ہے اور یہ بات بہرحال ثابت ہے کہ جماعت اسلامی کے متعلق پرویز صاحب نے صدر ایوب خاں کومشورہ دیا تھا … ’’قدرت اللہ شہاب جیسے لوگ جو ایوبی دور میں کلیدی حیثیت کے حامل تھے، بفضل خدا زندہ ہیں ، ان کے حافظے میں یہ تو محفوظ ہے کہ اس دور میں پرویز صاحب نے جماعت ِاسلامی کے متعلق کیامشورہ دیا تھا۔‘‘[2] پھر یہ بات بھی ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ ایوبی دور میں جماعت اسلامی اور اس کے امیر شدید ابتلا و آزمایش میں سے گزرے تھے۔ حتیٰ کہ جماعت ِاسلامی کو سرکاری طور پر کالعدم
[1] طلوع اسلام، ستمبر ۱۹۸۵ء صفحہ ۴۴ [2] طلوع اسلام، ستمبر ۱۹۸۵ء صفحہ ۵۴