کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 40
ایوب خان دراصل ایسے اسلام کے قائل تھے جو مغربی تہذیب و تمدن کے معیار پرپورا اُترتا ہو، لیکن وہ مغربی تہذیب کے معیار کا برملا نام لینے کی جگہ ’وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے‘کی گردان کیا کرتے تھے اور ان کی یہ اَدا پرویز صاحب اور طلوع اسلام کو بھا جاتی تھی، کیونکہ اصلاً یہ ان ہی کی اپنی ادا ہے۔ مالی اعانت ِ پرویز از ایوب خاں ایوب خاں طلوع اسلام کے لٹریچر سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اور پرویز صاحب کی مالی اعانت بھی کیا کرتے تھے۔ اس مالی معاونت کا اعتراف دبے لفظوں میں طلوع اسلام میں بھی موجود ہے، خود پرویز صاحب فرماتے ہیں : ’’صدر ایوب (مرحوم) سے میرے خاص روابط تھے، لیکن میں نے ان سے بھی کبھی کچھ نہیں مانگا تھا (جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے) وہ میرے لٹریچر میں بڑی دلچسپی لیتے تھے (ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ اُنہیں میری کوئی کتاب خاص طور پر پسند آئی تو اُنہوں نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ اس کی اشاعت وسیع تر ہو، اس کے لئے میں اپنی طرف سے بطورِ اعانت کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘ اس سے زیادہ میں نے ان سے بھی، نہ کچھ لیا، نہ مانگا) اس میں البتہ ایک استثناء ہوئی۔‘‘[1] صاحب ِ اقتدار اور ایوان اقتدار سے یہ تعلق بجائے خود ایک ’عظیم مفاد‘ ہے۔ ’طلوعِ اسلام‘ کا مطالعہ فوج میں لازم کیا گیا ایک اور ’مفاد‘ کوبھی ملاحظہ فرمائیے۔ اس مفاد کا ثبوت ظاہر ہے کہ پرویز صاحب کی زندگی میں تو ممکن نہ تھا کہ طلوع اسلام میں شائع ہوجاتا، لہٰذا جب تک وہ زندہ رہے، حصولِ مفاد کا یہ ثبوت منظر عام پر نہ آسکا۔ لیکن مرگِ پرویز کے بعد، وابستگانِ طلوعِ اسلام ، پرویز صاحب کی روایتی احتیاط کو ملحوظ نہ رکھ سکے اور میجر جنرل … کے قلم سے یہ ثبوت مجلہ کے دامن میں بایں الفاظ ثبت ہوگیا: ’’یہ شاید ۱۹۶۱ء کا ذکر ہے۔ پرویز صاحب میرے ہاں پنڈی آئے، اُنہیں فیلڈ مارشل ایوب خاں نے ملاقات کے لئے بلایا تھا۔ ایوب خاں کے کان میں بھی اس نئی سوچ کی بھنک پڑی،
[1] طلوع اسلام، جنوری ۱۹۸۴ء، صفحہ ۴۷