کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 4
ملک کے باشندوں سے روا رکھا گیا۔الغرض اس المیہ سے بحیثیت ِقوم ہمیں یہ واضح سبق ملتا ہے کہ اپنے مسائل کو اِفہام وتفہیم اور توازن واعتدال کی بجائے قوت سے حل کرنا غلطی، نادانی اور قوم کی حمایت سے محرومی کا سبب ہے…!!
آج پاکستان میں جامعہ حفصہ کے حوالے سے یہ بات گویا نقارۂ خلق بن چکی ہے کہ لال مسجد والوں سے طریقِ کار کی اگر لغزش ہوئی ہے تو حکومت نے اس سے کہیں بڑھ کر شدید غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ مولانا عبدالرشید غازی شہید نے اپنے آخری انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ہم نے غلطی کی ہے لیکن ہمیں اس کی سزا اس سے کہیں زیادہ دی جارہی ہے۔ہماری غلطی اتنی بڑی تو نہ تھی۔‘‘حکومت ِوقت نے اس لغزش کو جواز بنا کر اس موقع پر نہ صرف بین الاقوامی بلکہ ملکی، سیاسی، عوامی اور نظریاتی مفادات سمیٹنے کے لئے استحصالی رویہ کا مظاہرہ کیا۔
مناسب اَہداف کی طرف درست پیش قدمی
دینی جماعتیں اور ادارے عوام الناس کی اصلاح کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ۔ عوام بھی ان کی اس خدمت کی قدر کرتے ہوئے نہ صرف اپنے جگرگوشوں کو ان کے حوالے کرنے کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں بلکہ حسب ِاستطاعت ان اداروں کے مالی تعاون سے بھی گریز نہیں کرتے۔ان دینی اداروں اور تحریکوں کو اپنی منزل کا تعین کرتے ہوئے اعلیٰ ہدف کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے لیکن زمینی حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ معاشرے کے مصلح افراد کی اپنے معاشرے کے رجحانات اور حالات پر گہری نظر ہونی چاہئے۔ اہداف کے تعین اور اس کے لئے عملی طریقہ کار میں جہاں ایک معقولیت اور معروضیت ہونی ضروری ہے، وہاں اپنی صلاحیت اور قوت ِکار کا بھی پورا علم ہونا چاہئے۔
بعض ادارے ایسے اَہداف کے لئے اپنی صلاحیتیں کھپا نا شروع کردیتے ہیں جن کو پانے کے لئے اُنہیں خارجی ذرائع کی مدد لینا ناگزیر ہوجاتا ہے یا ایجنسیاں تعاون کے نام پر خود اُنہیں اپنے اَہداف کے لیے استعمال کرنا شروع کر دتی ہیں ۔ اس لحاظ سے کسی بھی تحریک وتنظیم کے قائد اور مرکزی اَفراد پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے زیر اثر افراد کی صلاحیتوں کو صحیح رخ دیتے ہیں یا ان کے دینی رجحانات کو جذباتی رنگ دے کر آخر کار ان کو ایسے میدان