کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 39
چنانچہ اس مشورہ کے بعد کیا ہوا؟ ’’ملک غلام محمد (مرحوم) نے پوری جرأتِ رندانہ سے کام لیا اور اکتوبر ۱۹۵۴ء میں مجلس دستور ساز کو برخاست کردیا اور اس طرح مملکت کو تباہی سے بچالیا۔‘‘[1] ظاہر ہے کہ اگر ’قرآن و سنت‘ پر مبنی دستور بن جاتا تو مملکت ِپاکستان ’تباہی سے نہیں بچ سکتی تھی۔‘ ایک اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی، اور دوسرے اندھے نے اس ’سوجھ بوجھ‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ’مملکت ِپاکستان کو تباہی سے بچالیا۔‘ پرویز صاحب کا معیار یہ تھا کہ ہر وہ حکمران جو علماے کرام کی ہم نوائی میں قرآن و سنت کا قائل ہو، ان کی نگاہ میں ناپسندیدہ بلکہ سخت مبغوض تھا۔ اس کے برعکس واہیات اور پتنگ بازی جیسی لغویات میں گہری دلچسپی رکھنے والا حکمران پرویز صاحب کی آنکھوں کا تارا تھا، بشرطیکہ وہ علماے کرام کا مخالف ہو۔ ملک غلام احمد ایسی ہی صفات کا مالک تھا ،اس کا مقننہ کو توڑ ڈالنا چونکہ خواہشِ پرویز کے مطابق تھا اور ا س کی تقاریر بھی چونکہ ’طلوع اسلام‘ ہی کے خیالات کا چربہ ہوا کرتی تھیں (بلکہ شاید وہ پرویز صاحب ہی کی تحریر کردہ تھیں ) اس لئے وہ قابل تعریف اور سزاوار ستائش تھا: ’’وہ دبنگ قسم کے آدمی تھے، اس لئے اُنہوں نے یہ مخالفت کھلے بندوں کی۔‘‘[2] دورِ ایوبی اور پرویز صاحب رہا ایوبی دور تو اس میں بھی اربابِ اقتدار کے ساتھ بالعموم اور ایوب خاں کے ساتھ بالخصوص ’مفکر قرآن‘ صاحب کے گہرے تعلقات تھے۔ علماے کرام جب یہ کہتے کہ…’’ہم قرآن و سنت کی بنیاد پر، طرزِ یثرب، پاکستان کی تعمیر کے خواہاں ہیں ، کیونکہ وہی ریاست ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے نمونہ اور مثالی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘… تو اس کے جواب میں ایوب خاں کہا کرتے تھے : ’’ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک کو تیرہ چودہ سو سال پیچھے دھکیل دیا جائے۔‘‘[3]
[1] طلوع اسلام، دسمبر ۱۹۸۰ء، صفحہ ۱۳ [2] طلوع اسلام، دسمبر۱۹۸۰ء، صفحہ ۱۰ [3] طلوع اسلام، جون ۱۹۷۴ء، صفحہ ۲۲