کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 37
لیکن عملاً وہ جماعتی حیثیت سے نہیں بلکہ جماعتی لیبل سے ہٹ کر الیکشن میں ارکانِ بزم طلوعِ اسلام کو حصہ لینے کی ترغیب دیا کرتے تھے،اور جہاں کہیں ان کے مسلک انکارِ حدیث پر پردہ پڑا رہا، اور سادہ لوح مسلمانوں کے ہاتھوں ووٹ لے کر جیت گئے،وہاں اُنہیں بصد فرحت و ناز ہدیۂ تبریک پیش کیا گیا: ’’اکثر مقامات سے یہ مسرت بخش اطلاعات موصول ہونی شروع ہوگئی ہیں کہ بزموں کے بعض ارکان یاطلوعِ اسلام کی قرآنی فکر سے دلچسپی لینے والے حضرات بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ ہم ان تمام احباب کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔‘‘[1] بزمِ طلوع اسلام کے پلیٹ فارم سے جماعتی حیثیت میں حصہ لینے کی صورت میں پرویز صاحب کو بھی اور وابستگانِ طلوع اسلام کو بھی یقین کامل تھا کہ مسلک ِانکار حدیث کے علمبردار ہونے کے باعث وہ اس معاشرے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے جو قرآن و سنت کی حجیت کا قائل ہے، لیکن دل ودماغ میں واقع اس اصل وجہ پرپردہ ڈالتے ہوئے وہ الیکشن میں بطورِ جماعت حصہ نہ لینے کی علت یہ بیان کیا کرتے تھے کہ چونکہ پاکستان میں رائج سیاست، میکیاولی سیاست ہے، اس لئے وابستگانِ طلوعِ اسلام جیسے ’بلند اخلاق اور پاکباز لوگ‘ عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ … ’’آپ عملی سیاست میں حصہ نہیں لیتے، اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘…طلوع اسلام یہ کہتا ہے : ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دور میکیاولی سیاست کا ہے اور کوئی شخص قرآنی حدود میں رہتے ہوئے اس سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس میں کامیاب ہونے کے لئے جماعت اسلامی جیسی پالیسی اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے، وہ پالیسی یہ ہے: 1. زندگی کی بعض ضروریات کے لئے جھوٹ بولنا واجب ہوجاتا ہے 2………… ……………3. ………… ہم سے یہ کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘[2] طلوعِ اسلام کی اس سخن سازی پر اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ ؎ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھا، ذرا بند قبا دیکھ!
[1] طلوع اسلام، جنوری ۱۹۶۰ء، صفحہ ۱۵ [2] طلوع اسلام، نومبر ۱۹۷۶ء، صفحہ ۴۷