کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 36
حاصل کیا جائے۔ اس مفاد کی متنوع شکلیں ہیں جیسا کہ خود ’مفکر قرآن‘ فرمایا کرتے تھے: ’’واضح رہے کہ دنیا میں مفاد صرف روپے کی شکل ہی میں نہیں ہوا کرتا۔ ذرا علم و فضل کی مسندوں ، زہدو تقویٰ کے آستانوں اور رہبرانِ ملت کی بارگاہوں پر ایک سرسری نظر ڈالو، اور دیکھو کہ کس قدر متنوع شکلیں ہیں جن میں اپنی بے لوث خدمات کامعاوضہ طلب کیا جاتا ہے۔ نذرانہ نہیں تو مخدومیت اور اطاعت اور اطاعت بھی اکثر پرستش کی حد تک، کبر نفس کے تقاضوں کی تکمیل، أنا الموجود ولاغیري کے بلند آہنگ دعاوی، تنقید کی حد سے ماورائیت اور کم ا زکم نام کی جھوٹی شہرت اور ان تمام داعیات واقتضائات کے باوجود بلا مدد ومعاوضہ خدمت کا دعویٰ۔ کتنا بڑا فریب ہے جواپنے آپ کو اور دوسروں کو دیا جاتا ہے۔‘‘[1] اگر کوئی شخص صحافی کے مقام سے آگے بڑھ کر ’مفکر قرآن‘ کا روپ بھی دھار چکا ہو، تو جھوٹے الزامات کے ذریعہ اپنے مخالفین کو رسوا و بدنام کرنا، اَربابِ اقتدار سے اپنے ذاتی تعلقات کو اپنے حریفوں کے خلاف استعمال کرنا، ملکی سیاست میں پس پردہ رہ کر اپنی پسندیدہ تبدیلیاں لانا، اپنی صحافت کے آرگن کو ان گوشوں تک وسیع کرنا جن تک رسائی اَربابِ اقتدار سے راہ و رسم پیدا کئے بغیر ممکن ہی نہیں ، دوسروں کے کارناموں کو اپنی ذات سے منسوب کرکے نام کی (جھوٹی) شہرت پانا، صرف اپنی ہی آواز کو صداے حق قرار دے کر یہ اعلان کرنا کہ ’’آؤ لوگو! یہی سے نورِ خدا پاؤ گے۔‘‘ یہ سب کچھ کیا ہیں ؟ ارباب اقتدار سے تعلقات کی ’برکات‘ اور ’خالص قرآن‘ کی’خدماتِ جلیلہ‘ کابدلہ و صلہ ہی تو ہیں ۔ ملکی سیاست میں کردارِ پرویز آئیے، اب یہ دیکھیں کہ ’مفکر قرآن‘ صاحب ملکی سیاست میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں اگرچہ زبان سے وہ سیاست سے غیر متعلق یا غیر سیاسی شخصیت ہونے کے دعوے دار تھے اور یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہماری جماعت : ’’بزمِ طلوع اسلام، نہ کوئی مذہبی فرقہ ہے، نہ سیاسی پارٹی‘‘ [2] ’’میرا تعلق نہ کسی مذہبی فرقہ سے ہے، اور نہ کسی سیاسی پارٹی سے۔‘‘[3]
[1] جوئے نور ، صفحہ ۸۹ [2] طلوع اسلام، اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۷۹ [3] طلوع اسلام، جولائی ۱۹۷۹ء ،صفحہ ۳۹