کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 34
اشتراکیت کامعاشی نظام رائج کرنا چاہتا ہے۔ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب نے ’مذہبی پیشوائیت‘ کی صفات اتنی کثرت سے بیان کی ہیں کہ ان کاشمار کرنا مشکل ہے کہ ان کا اقتدارِ وقت کے ساتھ گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ محراب و منبر اور تاج وتخت کے درمیان ملی بھگت ہوا کرتی ہے، ارباب ِشریعت اربابِاقتدارکے گن گاتے ہیں اور وہ جواباً اُنہیں مراعات فراہم کرتے ہیں ۔ پیشوایانِ مذہب، عامۃ الناس کو کرسی نشینوں کی اطاعت و اِنقیاد پر آمادہ کرتے ہیں اور اہل اقتدار کے ساتھ ’ساجھا پن‘ کے مزے لوٹتے ہیں ۔ گدی نشینوں اور کرسی نشینوں کے درمیان ’شریفانہ معاہدہ‘ کے باعث علما حضرات لوگوں کو یہ سبق دیتے ہیں کہ ’’راجہ، ایشور کا اوتار ہوتا ہے اور بادشاہ، خدائی حقوق کا حامل ہوتا ہے، لہٰذا اس کی اطاعت تم پر فرض ہے۔‘‘ اس کے بدلہ میں راجہ اور بادشاہ مالی وظائف کا انتظام کرتے ہیں اور یوں مذہبی پیشوائیت اور اربابِ اقتدار کے درمیان راہ و رسم ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ ’مفکر قرآن‘ کی بیان کردہ ان صفات کی روشنی میں اگر بے لاگ عدل و انصاف سے کام لے کر تحقیق کی جائے توایک طرف تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی جماعت پاکستان میں ہر حکومت کے مخالف رہے ہیں ۔ بلکہ بقول پرویز صاحب، اربابِ حکومت کو گالیاں دیتے رہے ہیں اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی طشت اَز بام ہوجاتی ہے کہ چوہدری غلام احمد پرویز کے ہر حکومت کے سربراہ کے ساتھ اچھے اور خوشگوار تعلقات ہمیشہ قائم رہے ہیں ، ہر حکمران کے وہ مقرب رہے ہیں اور ہر ذی اقتدار ہستی کے ساتھ ان کی اچھی علیک سلیک رہی ہے اور یہ بات اس اعتبار سے بھی قرین قیاس ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں سے جو بھی تخت ِاقتدار پر متمکن ہوا ہے، وہ مغربی افکار و نظریات ہی کا دودھ پی پی کر مغرب ہی کی بے حیا معاشرت کی گود میں پل کر آیا ہے اور اسے تقویٰ و پرہیزگاری کی اسلامی پابندی ہمیشہ گراں گزری ہے اس لئے ایسی پابندیوں کو ’ملا کی عائد کردہ پابندیاں ‘ قرار دے کر اُنہیں ختم کردینے کی ’دانشورانہ‘ کاوشیں برسر اقتدار طبقہ کوبڑی بھلی لگتی رہی ہیں ، کیونکہ وہ سب کچھ جو مغرب میں حلال اور جائز ہے اور ’ملاّ کے اسلام‘ میں حرام اور ممنوع ہے، وہ اگر ’مفکر قرآن‘ کی بارگاہ سے جائز اور حلال قرا رپائیں اور قرآن کی سند بھی ہاتھ میں رہے تو اس سے بڑھ کر