کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 33
تحقیق وتنقید پروفیسر ڈاکٹرحافظ محمد دین قاسمی
آخری قسط
مذہبی پیشوائیت؛ مذہب ِپرویز کا ایک کھوٹا سکہ
پاکستان میں تھیاکریسی کا مصداق کون؟
پاکستان کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو زیادہ تر دو شخصیات نے متاثر کیا ہے ۔ جن میں ایک جناب سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور دوسرے جناب غلام احمد پرویز۔ مؤخر الذکر کے نزدیک سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی جماعت ہی ’مُلّا‘ ہیں ، جو اگرچہ اقامت ِدین کا نام لیتے ہیں ، لیکن ان کے پیش نظر مذہبی پیشوائیت کا نظام قائم کرنا ہے :
’’اقامت ِدین کی تحریک کے مدعی یہاں تھیاکریٹک نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں نظامِ حکومت مذہبی پیشوائیت کے حق میں ہوتا ہے۔ما أنزل اللّٰه کے مطابق قیامِ حکومت ان میں سے کسی کا بھی مطالبہ یا نصب العین نہیں ۔‘‘[1]
ہمیں معلوم نہیں کہ ’مفکر قرآن‘ صاحب نے اس حقیقت کا انکشاف بربناے وحی کیاہے یا ان کے دلوں کوٹٹولا ہے یا ’مزاج شناس خدا‘ ہونے کی حیثیت سے وہ اس حقیقت کو جان گئے ہیں کہ ان کا مقصودتھیاکریٹک نظام کا قیام ہے۔
زمینی حقائق کی بنیاد پر اگر بے لاگ تحقیق کی جائے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور جناب پرویز صاحب میں سے کون ’مُلّا‘ ہے اور کس کے پیش نظر ’تھیاکریسی‘ قائم کرنا ہے تو تھیاکریسی کی اُن صفات کے پیش نظر جو’مفکر ِقرآن‘ صاحب نے بیان کی ہیں ، یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ پاکستان میں کس کے پیش نظر تھیاکریٹک نظام قائم کرنا ہے اور یہ کہ کس کی تحریک فی الواقع تھیاکریسی کی مصداق ہے اور کون ما أنزل ﷲ کے مطابق قیامِ حکومت کا متمنی ہے اور کون ما أنزل ﷲ کا ڈھنڈورا پیٹ کر مغربی معاشرت کے طور طریقوں کے ساتھ
[1] طلوع اسلام، ستمبر ۱۹۷۴ء ، صفحہ ۴۷