کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 32
دے،اس کی وہ قطعاً نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں وہ حکم دے دے۔‘‘
علماے اُمت نے صراحت سے لکھا ہے کہ عورت کے نگران اور سرپرست پر واجب ہے کہ اسے حرام اُمور کے ارتکاب سے بچائے، چاہے وہ لباس کاسلسلہ ہو یا کچھ اور۔ اگر وہ باز نہ آئے تو ولی اسے تادیبی سزا بھی دے سکتا ہے ، جیسا کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے :
((کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ)) (صحیح بخاری:۸۹۳)
’’تم میں سے ہر شخص مسؤل اور ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کی زیرتولیت (رعیت) کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘
الغرض معاشرتی تباہی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنا بہت ضروری ہے۔ اوّلاً تو حکام کو اس کا نوٹس لینا چاہیے،اور ساتھ ہی ان عورتوں کے والدین اور سرپرستوں کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہیے اور پھر بذاتِ خود عورت بھی اپنے گھر اور بہو بیٹیوں کیذمہ دار ہے، اس اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے کیونکہ اس سے روزِ قیامت ان اُمور کی پوچھ گچھ ہوگی اور اہل علم کو بھی چاہئیکہ لوگوں کو ان مسائل سے آگاہ کریں اور انہیں بُرے انجام سے ڈرائیں ۔ بالخصوص جو لوگ سعودی حکومت میں شعبہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے وابستہ ہیں ، ان کا تو فرضِ منصبی ہے کہ ان اُمور کی برائی واضح کریں ، اور ان کے خاتمہ کے لیے بھرپور محنت کریں ۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دُعاگو ہیں کہ وہ ہمیں ان ظاہر و پوشیدہ گمراہ کن فتنوں سے بچائے رکھے۔ اپنے دین کی نصرت فرمائے اور اس کا کلمہ سربلند ہو، دین کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے، بلا شبہ وہ بڑا ہی سخی اور مہربان ہے۔