کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 3
طاقت اور قوت کا استعمال
اس واقعہ سے بحیثیت ِقوم ہمیں جو اہم سبق حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے مسائل ومعاملات کو اِفراط وتفریط کی بجائے توازن واعتدال سے سمجھا اور جانچا جانا چاہئے۔ کسی بھی مسئلہ کو قوت کی بجائے اِفہام وتفہیم سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ قوت کے استعمال سے فوری طورپر نتائج تو حاصل ہوجاتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے نفرتیں اور کدورتیں جنم لیتی ہیں ۔
اس سانحہ میں یہ واضح سبق پوشیدہ ہے کہ جب تک غازی برادران بزور اپنے مطالبات منوانے کے دعووں پر جمے رہے اور اُنہوں نے اپنے مسائل کا حل چلڈرن لائبریری پر قبضے کے ساتھ معاشرے سے فحاشی کے جبری خاتمہ کو قرار دیا تو ملک کا دینی طبقہ اپنی تمام تردلی ہمدردیوں اور مسائل کی تشخیص میں ان سے اتفاق اور ان کے مطالبات سے کلی اظہارِ یکجہتی کے باوجود ان کی حمایت پر مجتمع نہ ہوسکا۔ ۷،۸ جولائی تک کی خبروں کو تازہ کیجئے جب لال مسجد کے غمگسار ودلی ہمدرد بھی قوت کے استعمال پر مبنی ان کے طریقہ کار کی مخالفت پر یک آواز تھے۔ ملک کے تمام دینی حلقے ان کے مطالبات کو جائز اور برحق قرار تو دیتے لیکن ان کے طریقہ کار کی مخالفت کرتے حتیٰ کہ اسی بنا پر وفاق المدارس العربیہ اور ان کے سرپرستوں نے بھی ان سے اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے قطع تعلقی اختیار کی۔
دوسری طرف ہمیں حکومت کے رویے سے بھی یہی سبق ملتا ہے۔ وہ پوری پاکستانی قوم جو لال مسجد والوں کے طریقہ کار کی مخالفت میں یک زبان تھی، جونہی حکومت نے جولائی کے پہلے عشرہ میں اِفہام وتفہیم کی بجائے جارحیت کا راستہ اختیار کیاتو قوت کے اس بے جا استعمال نے حکومت کو عوام کی حمایت سے کلی محروم کردیا۔۱۰ جولائی کے یومِ سیاہ سے لے کر آج تک قوم کے غم وغصہ میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ وہ لوگ جو اس ملک میں مدارس ومساجد کے بڑے نظریاتی مخالفوں میں شمار ہوتے ہیں ، اُنہوں نے بھی اس موقع پرحکومت کے رویہ کی مذمت کی ہے۔ اس واقعہ کے اہم حکومتی کردار اگر عوام کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرسکے تو گھروں میں جاکر اُنہوں نے ضمیر کے بوجھ تلے ندامت کے آنسو ضرور بہائے ہیں ۔ پوری قوم اس ظلم پر سراپا احتجاج ہے۔ اس احتجاج کی وجہ قوت کا وہ بدترین استعمال ہے جو اپنے ہی