کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 29
ہیں ۔ اور مردوں کا حال یہ ہے کہ عورتوں کی طرح بناؤ سنگار کرتے اور ان کی گفتگو سے نسوانیت جھلکتی ہے، مردوں کا عورتوں کے مشابہ عادات اختیار کرنا بالکل ناجائز ہے،مثلاً داڑھیاں منڈانا، سونے کی انگوٹھیاں ، سونے کی گھڑیاں ، کڑے اور چین وغیرہ استعمال کرنا، ملبوسات میں سونے کے بٹن استعمال کرنا وغیرہ اور عورتوں جیسی چال ڈھال اختیار کرنا۔ پھر یہ مرد ہوتے ہوئے عورتوں کی طرح اپنی چادریں شلواریں لٹکاتے ہیں اور دوسری طرف عورتوں کا حال یہ ہے کہ ان کا لباس مختصر ہوتے ہوئے گھٹنے یا اس سے اوپر تک آرہا ہے، جس سے ان کی رانیں بالکل نمایاں (بلکہ عریاں ) ہورہی ہوتی ہیں ۔ ہم ان کی اس بے حیائی اور اللہ کی حرمتوں کی پامالی پر اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ۔ 4. عورتوں کے اس قسم کے لباس کو بے دین لوگ خواہ کتناہی زیب و زینت قرار دیں ، لیکن ان کا یہ خیال نرا باطل ہے، کیونکہ زینت حقیقت میں وہ ہے جس میں شرم وحیا موجود ہو، اور عورت اس میں باوقار نظر آئے۔ یقینا لباس اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کا اللہ نے احسان جتلایا ہے۔ فرمایا:﴿یٰبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا﴾ (الاعراف:۲۶) ’’ اے اولادِ آدم! ہم نے تم پر لباس اُتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا اور تمہارے لئے زینت ہے۔‘‘ اور یہ کوئی زینت نہیں کہ انسان بے لباس اور برہنہ ہوجائے اور بے دین فرنگیوں کی نقالی کرنے لگے۔ بالفرض اگر اسے زینت سمجھ بھی لیا جائے تو ہر عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ جو اس کے جی میں آئے، اسے زینت اور سنگار کے نام سے اپنا لے۔ زینت کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو شریعت میں ممنوع بلکہ حرام ہیں اور ان کامرتکب لعنت کا مستحق قرار پاتاہے۔ جیسے واصلۃ اور مستوصلۃ (بال جوڑ کر لمبے کرنے اور کرانے والی مثلاً وِگوں کے ذریعے) نامصۃاور مُتنمَّصۃ یعنی اپنے ابروؤں کو نوچ کر باریک بنانے اور بنوانے والی؛ واشرۃ اور مستوشرہ یعنی اپنے دانت باریک کرنے اور کروانے والی؛ واشمۃ اور مستوشمۃ جسم گودنے اور گدوانے والی، سب عورتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ