کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 27
’’میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی شرم گاہوں کو کس سے چھپائیں اور کس سے نہ چھپائیں ؟ فرمایا: ’’احفظ عورتک إلا من زوجتک أو ما ملکت یمینک‘‘
یعنی ’’اپنے ستر (اور شرمگاہ) کی حفاظت کر (اور اسے چھپا) سواے اپنی بیوی یا لونڈی کے۔‘‘
کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اگر لوگ اپنے ہی ہوں ، تو فرمایا:
’’فإن استطعت أن لا یرینھا أحد فلا یرینھا‘‘
’’جہاں تک تیری طاقت ہو کہ اسے کوئی اور نہ دیکھ سکے، تو اسے کوئی اور نہ دیکھے‘‘۔
میں نے کہا: اگر آدمی اکیلا ہو۔ تو فرمایا: ’’اللّٰه أحق أن یستحیٰی منہ‘‘
’’اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔‘‘ (سنن ابوداؤد:۴۰۱۷)
بلکہ ایسا لباس بھی صریحاً منع ہے جو جسم کی نرمی ،سختی یا اس کا حجم واضح کرتا ہو۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قبطی (مصری) کپڑا عنایت فرمایا جو معمولی موٹا تھا، یہ کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے ہدیہ کیا تھا۔ میں نے وہ کپڑا اپنی بیوی کو پہننے کو دے دیا۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا: ’’کیا بات ہے کہ تو نے وہ قبطی کپڑا پہنا نہیں ؟‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ میں نے اپنی بیوی کو پہنا دیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مُرھا فلتجعل تحتھا غِلالۃ إنی أخاف أن تصف حجم عظامھا))’’اسے کہنا کہ اس کے نیچے (بنیان کی طرح کوئی) زیر جامہ بھی استعمال کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے اس کی ہڈیوں کاحجم جھلکے گا۔‘‘ (مسند احمد:۵/۲۰۵)
فقہاے کرام نے لکھا ہے کہ عورت کے لئے اپناکمربند کس کر باندھنا بھی درست نہیں ہے، جیسے کہ زُنار ہوتی ہے۔ چاہے وہ عورت نماز کے اندر ہو یا عام حالت میں ، کیونکہ اس سے عورت کے اعضاے جسم اور کولہے وغیرہ بہت نمایاں ہوجاتے ہیں ۔
فقہا تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ عورت کو اُٹھتے بیٹھتے ہوئے اپنے کپڑے بھی زیادہ سمیٹنے نہیں چاہئیں کیوں کہ ا س سے اس کے جسم کے انگ نمایاں ہوجاتے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ کی ان ہدایات کی روشنی میں آج ہم عورتوں کے اس لباس کا جائزہ لیں جو روز بروز مقبول ہوتا جارہا ہے، تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ لباس تو کمر بند باندھنے اورکپڑے سمیٹنے سے کہیں بڑھ کر ہے، لہٰذا اس کی ممانعت اور اس سے احتراز کرنے کی زیادہ تاکید ہونی چاہئے۔