کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 26
ولا یجدن ریحھا ورجال معھم سیاط مثل أذناب البقر یضربون بھا الناس)) (مسند احمد:۲/۳۵۵،صحیح مسلم:۲۱۲۸)
’’میری اُمت میں سے دو طرح کے لوگ دوزخی ہوں گے، میں نے ابھی تک انہیں دیکھا نہیں ہے : 1. ایسی عورتیں جو کپڑے پہنے ہوں گی مگر (حقیقت میں ) بے لباس اور ننگی ہوں گی، (بے حیائی کی طرف) مائل اور دوسروں کومائل کرنے والی ہوں گی۔ ان کے بالوں کی وضع ایسی ہو گی جیسے کہ بختی اونٹنیوں کے ڈھلکے ہوئے کوہان ہوں ، یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی بلکہ اس کی خوشبو تک نہ پاسکیں گی اور 2. مرد ہوں گے، ان کے ہاتھوں میں کوڑے ہوں گے جیسے کہ بیلوں کی دُمیں ہوتی ہیں ، وہ ان سے لوگوں کو مارتے پھرتے ہوں گے۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان عورتوں کے لباس اس قدر باریک اور مہین ہوں گے کہ ان کے جسم کی رنگت دکھاتے ہوں گے یا اس قدر تنگ اور چست ہوں گے کہ ان کے جسم کا انگ انگ ظاہر ہوتا ہوگا۔
عورت کالباس ایساہونا چاہئے جو اس کے جسم کو پوری طرح چھپالے۔ کپڑا موٹا اور کھلا ہو جس سے اعضا کی جسامت نمایاں نہ ہو۔ مسلمان عورت کو اسلام کی ہدایت ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھپائے اور پردہ کرے، کیونکہ وہ سراسر عَوْرَۃ ہے یعنی ستر اور چھپانے کی چیز۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے حکم ہے کہ اللہ کے حضور نماز پڑھتے ہوئے بھی اپناسر ڈھانپے، خواہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو، اور کوئی اجنبی اسے نہ بھی دیکھ رہا ہو، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
لا یقبل اللّٰه صلاۃ حائض إلا بخمار (جامع ترمذی:۳۷۷)
’’اللہ تعالیٰ کسی جوان بالغ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا ۔‘‘
اس فرمان کامفہوم اور تقاضا یہ ہے کہ شریعت نے جس تاکید سے عورت کوچھپنے کا حکم دیا ہے ، اس طرح مردوں کو یہ حکم نہیں دیا۔ اور یہ خالص اللہ کا حق ہے، خواہ اسے کوئی اجنبی نہ بھی دیکھ رہا ہو۔ عورۃ (چھپانے کی چیز اور شرمگاہ) کا چھپانا اللہ عزوجل کا حق ہے، خواہ بندہ نماز میں نہ بھی ہو، یا اندھیرے میں ہو یا اکیلا ہو تب بھی ستر عورۃ واجب ہے۔ اسے ایسا لباس پہننا چاہئے جو اسے کماحقہ چھپا دے، اور اس سے جلد کی رنگت ظاہر نہ ہوتی ہو۔ بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ