کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 25
أصحاب الجحیم میں ایسے تمام نقصانات کا تذکرہ کیا ہے جو عجمیوں اور کفار کی تقلید سے سامنے آتے ہیں ۔ شریعت ِمطہرہ نے کفار کے علاوہ عجمی، بدوی اور دیہاتی لوگوں کی مشابہت سے بھی منع کیا ہے اور اس ممانعت میں دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعاجم و کفار کی طرح آج کے عجمی بھی شامل ہیں ، بلکہ اس میں مسلمان عجمی بھی شامل ہیں جن سے سابقین اوّلین محفوظ تھے اور ان لوگوں کے رسوم و رواج اور بہت سے معمولات اس ’جاہلیت ِاولیٰ‘ کے زُمرے میں آتے ہیں جن میں لوگ قبل از اسلام مبتلا تھے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اب تو عرب کی بھی ایک بڑی تعداد اپنی ان سابقہ جاہلیت والی عادات ورسوم کی طرف لوٹ رہی ہے۔ 2. عورت سر تا پا قابل ستر ہے، اور ازروئے شریعت اس امر کی پابند ہے کہ اپنے آپ کو چھپائے، پردہ کرے اور کسی صورت بھی اپنے حسن و جمال، زیب و زینت، سنگھار اور مردوں کو فتنہ میں ڈالنے والے جسم کی نمائش نہ کرے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: ﴿یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لاَِزْوَاجِکَ وَ بَنَاتِکَ وَ نِسَائِ الْمُؤمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِھِنَّ﴾ (الاحزاب:۵۹) ’’اے نبی! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی چادریں اپنے اُوپر اوڑھے رکھا کریں ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الاُولیٰ﴾ (الاحزاب: ۳۳) ’’اور سابقہ جاہلیت کی طرح اپنی زینت کا اظہار نہ کرتی پھریں ۔‘‘ اس دور میں رواج پانے والا فرنگی لباس کفار کی مشابہت کے علاوہ عورت کے جسم کو کسی طرح بھی چھپانے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے فتنہ ہائے جسم کو از حد نمایاں کرتا ہے۔ اس لباس کی یہ خصوصیت خود عورت اور اسے تاکنے والوں کو دھوکے اور فتنے میں مبتلا کردیتی ہے۔ ایسا لباس پہننے والی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی مصداق ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صنفان من أمتي من أھل النار لم أرھما بعد: نساء کاسیات عاریات مائلات ممیلات علی رؤوسھن کأسنمۃ البخت المائلۃ لا یدخلن الجنۃ