کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 24
اس دور میں حالات بہت حد تک بدل چکے ہیں ۔ عورتوں کی بڑی تعداد نے حیا کی چادر اُتار پھینکی ہے۔ دینی احکام کی پاسداری کے سلسلے میں یہ بڑی بے پرواہ اور بے فکر ہوتی جا رہی ہیں ، اور روز بروز اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔اس بات سے شدید خوف آتا ہے کہ مسلمان قوم اپنی عریانی، بے پردگی، بے راہ روی اور آزاد روش کی بنا پر اللہ کی طرف سے کسی بدترین سزا اور سابقہ قوموں جیسے خوفناک انجام سے دوچارنہ ہوجائے۔
فی زمانہ مسلمان عورتوں نے بالعموم ایسے لباس پہننا شروع کردیئے ہیں جو ان کے جسم کے نشیب و فراز اور اَنگ انگ کوظاہر کرتے ہیں ۔ ان ملبوسات سے بازو، چھاتیاں ، کمر اور کولہے سب نمایاں ہوتے ہیں ۔ مسلمان خواتین میں جو کپڑے روز بروز مقبول ہوتے جارہے ہیں وہ اس قدر باریک اور مہین ہوتے ہیں کہ ان سے ان کے جسم کی رنگت تک جھلکتی ہے۔ بازو بہت مختصر اور تنگ اور نیچے سے پنڈلیاں تک ننگی ہوتی ہیں ۔ یقینا یہ چیزیں فرنگیوں کی تقلید اور ان کے ساتھ والہانہ وارفتگی کاخوفناک نتیجہ ہیں ۔موجودہ صورتحال انتہائی بے حیائی کی غماز ہے اور عام لوگ اس صورتِ حال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ مسلم مردوں اور ذمہ داران کا یہ طرزِعمل اللہ کی حدود میں مداہنت، اللہ کی نافرمانی میں دلچسپی اور اُخروی انجام سے بے پروا لوگوں کی اطاعت کا نتیجہ ہے۔ یہ خاموشی کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ اور کسی بڑے فساد کا دروازہ کھول سکتی ہے۔ ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ ایسی عادات کا غلط اور حرام ہونا واضح کیا جائے۔ اُنہیں ان کے غلط اقدامات سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی جائے ۔
اختصار کے ساتھ ذیل میں اس مسئلہ کے بعض اہم پہلو پیش کئے جاتے ہیں :
1. یہ (بے پردگی اور عریانی) فرنگیوں اور غیرمسلموں کی تقلید ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اور احادیث میں غیرمسلموں کی مشابہت سے منع کیا گیاہے۔ جن سے واضح ہوتا ہے کہ کفار کی پیروی اور تقلید سے روکنا صاحب ِشریعت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اہم تالیف اقتضاء الصراط المستقیم٭ في مخالفۃ
_________________
٭ اس کتاب کے کئی اُردو تراجم دستیاب ہیں، مثلاً’اسلام اور غیر اسلامی تہذیب‘ ترجمہ : مولوی شمس تبریز خان،رفیق مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام اور ’راہِ حق کے تقاضے‘ ناشر: مکتبہ سلفیہ لاہور، وغیرہ