کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 21
اس وضاحت کے بعد کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ قرآن کا متن ایک قراء ت کے سوا کسی اور قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا؟ ایسا دعویٰ صرف وہی آدمی کرسکتا ہے جو علم قرا ء ات سے نابلد اور رسم عثمانی سے بے خبر ہو اور جس نے کبھی آنکھیں کھول کر قرآن کے متن کو نہ پڑھا ہو۔ دراصل قراء اتِ متواترہ کا یہ اختلاف دنیا کی ہر زبان کی طرح تلفظ اور لہجے کا اختلاف ہے۔ ان سے قرآنِ مجید میں کوئی ایسا ردّ و بدل نہیں ہوجاتا جس سے اس کے معنی اور مفہوم تبدیل ہوجائیں یا حلال حرام ہوجائے بلکہ اس کے باوجود بھی قرآن قرآن ہی رہتا ہے اور اس کے نفس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ خود ہماری اُردو زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں : ۱۔ ’’ پاکستان کے بارہ میں ‘‘ یا ’’ پاکستان کے بارے میں ‘‘ ۲۔’’ناپ تول‘‘ یا ’’ماپ تول‘‘ ۳۔’’ خسر‘‘ یا ’’سسر‘‘ یہ ’ بارہ ‘ اور ’ بارے‘ دونوں درست ہیں ۔ یہ تلفظ اور لہجے کا فرق ہے، مگر معنی کا فرق نہیں ہے۔ اسی طرح انگلش کا لفظ Schedule ہے۔ اس کے دو تلفظ ’ شیڈول‘ اور ’ سیکجوئل‘ ہیں اور دونوں درست ہیں ، Cosntitutionکو کانسٹی ٹیوشن او رکانسٹی چوشن بھی پڑھتے ہیں اور یہ بھی محض تلفظ اور لہجے کا فرق ہے، کوئی معنوی فرق نہیں ہے۔ بالکل یہی حال قرآنِ مجید کی مختلف قراء اتِ متواترہ کا ہے۔