کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 20
موجود ہے۔ بلکہ اہل علم جانتے ہیں کہ ان میں پہلی دو قراء تیں تیسری قراء ت (روایت ِحفص) کے مقابلے میں زیادہ متداول اور زیادہ فصیح عربی کے قریب ہیں ۔ کیونکہ یہی لفظ جب مشہور جاہلی شاعر عمرو بن کلثوم کے معلّقے میں آتا ہے : صبنت الکأس عنا أمّ عمرٍو وکان الکأسُ مجراھا الیمینا تو اس شعر کے لفظ مجراھا کو بھی عام طور پر مَجْرٰھَا پڑھا جاتا ہے۔ اسے روایت حفص کی طرح کوئی بھی مَجْرَ یْ ھَا نہیں پڑھتا۔ تیسری دلیل غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خود روایت ِحفص (جسے وہ قراء تِ عامہ کا نامانوس نام دیتے ہیں ) میں بھی قرآنِ مجید کے کئی الفاظ کی دو دو قراء تیں درست ہیں ۔ گویا ایک ہی قراء ت (روایت ِحفص) میں بھی بعض قرآنی الفاظ کو دو دو طریقوں سے پڑھا جاسکتا ٭ہے اور پڑھا جاتا ہے۔ جیسے: الف) سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۴۵میں ہے :﴿وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ﴾ یہاں لفظ یَبْصُطُ کو دیگر قراء توں میں یَبْسُطُ بھی پڑھا جاتا ہے جس کے لیے ہمارے ہاں کے مصاحف میں حرف صاد کے اوپر چھوٹا ’س‘ ڈال دیا جاتا ہے۔ ب) سورۃ الروم کی آیت نمبر۵۴ میں ہے: ﴿اللّٰه الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً…﴾ میں روایت ِحفص میں ہی ضُعْفٍ کے تینوں الفاظ کو ضَ کے زبر کے ساتھ ضَعْفٍ پڑھنا بھی جائز ہے، جیسا کہ اس کا تذکرہ ہر قرآن مجید کے حاشیہ پر موجودہوتا ہے۔ ج) سورۃ الطورکی آیت نمبر ۳۷میں ہے: ﴿اَمْ عِنْدَھُمْ خَزَآئِنُ رَبِّکَ اَمْ ھُمُ الْمُصَیْطِرُوْنَ﴾میں لفظ الْمُصَیْطِرُوْنَ کو الْمُسَیْطِرُوْنَ بھی پڑھا جاتا ہے۔ روایت حفص میں ’ص‘ اور ’س‘ دونوں طرح منقول ہے۔ _________________ ٭ روایت ِحفص میں یَبْصُطُ کو صرف س کے ساتھ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔