کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 19
مالک ہی ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید کے نظائر سے بھی ان دونوں مفاہیم کی تائید ملتی ہے۔ اس طرح قراء ات کا یہ اختلاف اور تنوع قرآنِ مجید کے رسم عثمانی سے ہی ثابت ہوتاہے۔ اب مذکورہ لفظ ملک کے رسم عثمانی پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ غامدی صاحب کی رائے کے برعکس اس قرآنی لفظ کا متن روایت ِورش (مَلِکِ) کو زیادہ قبول کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں روایت ِحفص کو کم قبول کرتا ہے۔ پہلی قراء ت (روایت ِورش) میں اسے بغیر تکلف کے ملک کو مَلِکِ پڑھا جاسکتا ہے۔ اور دوسری قراء ت (روایت ِحفص) میں اسے تھوڑے سے تکلف (کھڑا زبر) کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ پہلی دلیل اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ جب سورۃ الناس کی دوسری آیت میں آتا ہے تو رسم عثمانی کے مطابق اس طرح آتا ہے: ﴿ملک الناس﴾ اور سب اسے ﴿مَلِکِ النَّاسِ﴾ پڑھتے ہیں جو کہ متن کے بالکل قریب ایک صحیح قراء ت ہے اور اسے کوئی بھی مٰلِکِ (کھڑے زبر کے ساتھ) نہیں پڑھتا۔ لہٰذا سورۃ الفاتحہ میں بھی مٰلِکِ کو مَلِکِ پڑھنے کی پوری پوری گنجایش موجود ہے اور روایت ِ ورش کے مطابق یہ بالکل جائز اور درست ہے۔ دوسری دلیل اس کی دوسری دلیل سورۂ ہود کی آیت نمبر ۴۱ کے لفظ مَجْرٖھَا میں ہے: ﴿بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا﴾ جسے رسم عثمانی میں یوں لکھا گیا ہے: بسم اللہ محرھا و مرسھا اس میں لفظ مجرھا کو قراء اتِ متواترہ میں تین طرح سے پڑھا جاتا ہے : مجرھا اصل رسم عثمانی 1. مَجْرٰگھَا ایک متواتر قراء ت کے مطابق 2. مُجْرِیْھَا دوسری متواتر قراء ت کے مطابق 3. مَجْرَ ے ھَا تیسری متواتر قراء ت (روایت ِحفص) کے مطابق اس سے معلوم ہوا کہ رسم عثمانی کے مطابق لکھا ہوا یہ لفظ محرھاجو کہ قرآن کا اصل متن ہے، وہ تینوں متواتر قراء توں کو قبول کرلیتا ہے اور اسے تینوں طریقوں سے پڑھنے کی گنجائش