کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 17
1. عبداللہ بن عامر شامی (م ۱۱۸ھ) 2. عبداللہ بن کثیر مکی (م ۱۲۰ھ) 3. عاصم بن ابی نجود (م ۱۲۸ ھ) 4. ابوعمرو بن علاء بصری (م ۱۵۴ھ) 5. حمزہ بن حبیب الزیات (م ۱۵۶ھ) 6. نافع بن عبدالرحمن (م ۱۶۹ھ) 7. علی بن حمزہ کسائی اسدی (م ۱۸۹ھ) اور اس کے بعد یہ لکھا ہے کہ ولیس في ھؤلاء السبعۃ من العرب إلاَّ ابن عامر و أبو عمرو ’’ اور ان ساتوں میں سواے ابن عامر اور ابوعمرو کے کوئی بھی عربی النسل نہیں ۔ ‘‘ (البرہان : جلد اوّل، صفحہ۳۲۹، طبع بیروت) اب غامدی صاحب اگر عربی النسل قراء کی قراء توں کو ’عجم کا فتنہ‘ کہہ کر اُن کا انکار کرسکتے ہیں تو وہ ایک عجمی قاری کی قراء ت (امام عاصم رحمۃ اللہ علیہ کی قراء ت جس کی روایت امام حفص رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اور جسے غامدی صاحب ’قراء تِ عامہ‘ کا نام دے کر صحیح مانتے ہیں ) کو کس دلیل سے صحیح مانتے ہیں ؟ اگر عربی قراء تیں محفوظ نہیں رہیں اور وہ عجم کے فتنے کا شکار ہوگئی ہیں تو ایک عجمی قراء ت عجم کے فتنے سے کیسے محفوظ رہ گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ متواتر قراء تیں عجم کا فتنہ نہیں ہیں بلکہ غامدی صاحب خود عجم کا فتنہ ہیں ۔ 3. اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کررہی ہے، کیا صرف وہی قرآن ہے؟ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کررہی ہے، صرف وہی قرآن ہے۔ عظیم اکثریت کی بنا پر قرآن کی ایک ہی قراء ت ہونے کا دعویٰ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ دنیاے اسلام میں چونکہ حنفی فقہ کے پیروکاروں کی اکثریت ہے، اس لیے صرف فقہ حنفی ہی صحیح فقہ ہے اور صرف یہی اسلامی فقہ ہے اور باقی تمام فقہیں فتنۂ عجم کے باقیات ہیں ۔ ظاہر ہے ایسا دعویٰ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو یا تو احمق ہو، یا انتہائی درجے کا متعصب ہو یا پھر فتنہ پرور ہو۔