کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 16
قرآن پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، ایسے تھے کہ وہ تعداد میں سات ہونے کے باوجود گویا ایک ہی حرف تھے۔ ان کے مطابق پڑھنے سے حلال و حرام کا فرق واقع نہیں ہوتا ۔ ‘‘ (صحیح بخاری:۳۲۱۹، صحیح مسلم:۸۱۹) چوتھی حدیث ’’ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قرآن پڑھتے سنا جب کہ اس سے پہلے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے سنا تھا۔ میں اس آدمی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور آپ کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری بات ناگوار گزری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں ٹھیک طرح پڑھتے ہو۔ آپس میں اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے جو قومیں ہلاک ہوئیں ، وہ اختلاف ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ۔ ‘‘ (صحیح بخاری:۳۴۷۶) ان احادیث ِصحیحہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآنِ مجید کو مختلف لہجات کے مطابق پڑھنے کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی ہوئیہے جو دراصل ایک ہی عربی زبان کے الفاظ کے مختلف تلفظات (Pronounciations) تھے جو دنیا کی ہر زبان میں پائے جاتے ہیں ۔ 2. کیا ایک کے سوا باقی تمام قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں ؟ غامدی صاحب کے موقف کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی ایک قراء ت کے سوا باقی تمام قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں ۔ غالباً یہ نکتہ (بلکہ اسے ’حربہ‘ کہنا زیادہ موزوں ہے) غامدی صاحب نے جناب پرویز صاحب سے سیکھا ہے جو تمام احادیث کو عمر بھر عجمی سازش کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔ اب انہی کے انداز میں غامدی صاحب نے بھی قرآن مجید کی ایک قراء ت کے سوا باقی سب قراء توں کو عجم کا فتنہ قرار دے ڈالا ہے۔ غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس ’ روایت ِحفص ‘ کو وہ ’ قراء تِ عامہ ‘ کا جعلی نام دے کر صحیح مان رہے ہیں وہ دراصل امام عاصم بن ابی النجود رحمۃ اللہ علیہ کی قراء ت ہے جس کو امام ابو حفص نے اُن سے روایت کیا ہے اور خود امام عاصم بن ابی النجود عربی النسل نہیں بلکہ عجمی النسل تھے۔ چنانچہ امام بدر الدین زرکشی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب البرہان في علوم القرآن میں پہلے سبعہ قراء (سات مشہور قراء حضرات) کے یہ نام لکھے ہیں :