کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 13
مذکورہ اقتباسات کے مطابق غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ 1. قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے۔ 2. باقی تمام قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں ۔ 3. اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کر رہی ہے، صرف وہی قرآن ہے۔ 4. قرآن کا متن ایک قراء ت (روایت ِحفص) کے سوا کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اب ہم ان نکات پر بحث کرتے ہوئے غامدی صاحب کے موقف کا جائزہ لیں گے: 1. کیا قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے؟ غامدی صاحب کا کہناکہ قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے، صحیح نہیں ہے کیونکہ اُمت ِمسلمہ قرآنِ مجید کی سبعہ و عشرہ قراء ات کو مانتی ہے جس کے دلائل حسب ِذیل ہیں : 1. یہ قراء تیں صحابہ و تابعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور رسم عثمانی کی حدود کے اندر ہیں اور اس کے مطابق ہیں اور یہ اجماعِ اُمت سے ثابت ہیں ۔ 2. علوم القرآن کے موضوع پر لکھی جانے والی تمام اہم کتب میں یہ قراء ات بیان کی گئی ہیں جیسے امام بدر الدین زرکشی نے البرہان في علوم القرآن میں اور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الإتقان میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو درست مانا ہے۔ 3. تمام قدیم و جدید اہم تفاسیر میں ان قراء ات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ 4. عالم اسلام کی تمام بڑی دینی جامعات مثلاً جامعہ ازہر اور جامعہ مدینہ منورہ وغیرہ کے نصاب میں یہ قراء ات شامل ہیں ۔ ٭ 5. اُمت کے تمام مسلمہ مکاتب ِفکر کے دینی مدارس میں یہ قراء ات پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں ۔ _________________ ٭ ادارۂ محدث کے تعلیمی ادارے جامعہ لاہور الاسلامیہ میں درسِ نظامی کے ۸ سالہ عرصہ میں ان قراء ات کی بھی مکمل اور اعلیٰ ترین تعلیم دی جاتی ہے۔۱۹۹۱ء میں جامعہ ہذا کے ذریعے دینی مدارس میں ایک روایت سازمنصوبے کی طرح ڈالی گئی جس کے بعد درجن بھر مدارس نہ صرف اسی نصابی روایت پر عمل پیرا ہوچکے ہیں بلکہ وفاق المدارس کی طرف سے اس نصاب کو منظور کرکے اس کے تحت امتحانات بھی دیے جاتے ہیں۔