کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 12
بسلسلۂ غامدیت محمد رفیق چودھری
کیا قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت صحیح ہے؟
غامدی صاحب نے اُمت کے جن متفقہ، مُسلّمہ اور اجماعی اُمور کا انکار کیا ہے، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کی (سبعہ و عشرہ) قراء اتِ متواترہ کو نہیں مانتے۔ اُن کے نزدیک قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت صحیح ہے جو اُن کے بقول ’ قراء تِ عامہ‘ ہے اور جسے علما نے غلطی سے ’ قراء تِ حفص‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اس ایک قراء ت کے سوا باقی سب قراء توں کو غامدی صاحب عجم کا فتنہ قرار دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ پوری قطعیت کے ساتھ یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ قرآن کا متن اس ایک قراء ت کے سوا کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ’ میزان ‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔ اس کے علاوہ اس کی جو قراء تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں ، یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں ، وہ سب اسی فتنۂ عجم کی باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ، افسوس ہے کہ محفوظ نہ رہ سکا۔ ‘‘ (میزان:صفحہ ۳۲، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ء)
وہ مزید لکھتے ہیں کہ
’’ قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر دنیا میں اُمت ِمسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کررہی ہے۔ یہ تلاوت جس قراء ت کے مطابق کی جاتی ہے، اس کے سوا کوئی دوسری قراء ت نہ قرآن ہے اور نہ اُسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘
(میزان:صفحہ ۲۵، ۲۶، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ء)
پھر آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ
’’ قرآن کا متن اس (ایک قراء ت) کے علاوہ کسی دوسری قراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا۔ ‘‘ (میزان:ص ۲۹،طبع دوم ، اپریل ۲۰۰۲ء)