کتاب: محدث شمارہ 313 - صفحہ 11
ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں دینی روایات واَقدار مسخ ہوکر مٹ چکی ہیں اور لادینیت واباحیت کے اثرات روز افزوں ہیں ۔
کیا نفاذِ شریعت بزور بازو ہوسکتاہے؟
سانحہ لال مسجد سے ایک بار پھر یہ بات کھل کرسامنے آئی ہے کہ نفاذِ شریعت کا عمل مسلح جدوجہد یا قوت کے استعمال کے ذریعے کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ماضی میں تحریک ِنفاذِ شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ اسی نوعیت کی کوششیں تھیں ، اور حال میں بھی بعض جماعتیں قوت کے ذریعے انقلاب کی بات کرتی ہیں ۔ لیکن جدید دور کی ریاست اس حد تک طاقتور ہوچکی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا دائرۂ اثر اس حد تک وسیع ہوچکا ہے کہ قوت سے انقلاب لانا ایک ناقابل عمل طریقہ بنتا جارہا ہے۔اس طریقہ کا مذہبی طبقہ کو سراسر نقصان ہے۔
یوں بھی اگر وقتی طورپر کسی واقعاتی تائید یا مصنوعی مددسے یہ مرحلہ مکمل بھی ہوجائے تو اس کے فوائد سمیٹنا یا اس کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس واقعہ سے سماج میں کام کرنے والی ہرتنظیم کو سبق سیکھنا چاہئے۔
یہ وقت جہاں سانحۂ لال مسجد کے حوالے سے اپنے رنج وغم سے قوم کو آگاہ کرنے کا ہے، ہونے والے ظلم کی مذمت کرنے کا ہے، وہاں اس سانحہ کے بعد اس بحث کو بھی شروع ہونا چاہئے کہ دینی جماعتیں اور ادارے کن رہنما خطوط پر اپنے کام کو مثبت انداز میں آگے بڑھا کر اسلامی اہداف و مقاصد حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ وقت ماضی میں استعمال کئے جانے والے طریقوں کے جائزے، حال کے تجزیے اور مستقبل کے لئے پیش بندی اور منصوبہ بندی کا ہے۔ نادان لوگ ظلم وستم پر رودھو کر چپ ہوجاتے ہیں لیکن ذمہ دارلوگ ہر واقعہ سے سبق حاصل کرتے اور اپنے اَہداف کو مزید نکھارتے چلے جاتے ہیں ۔
محدث کے صفحات اس حوالے سے حاضر ہیں کہ دینی جماعتوں ، اداروں ، شخصیات اور اَفراد کو مستقبل کا کیا لائحہ عمل اور مقاصد کے حصول کی کیا حکمت ِعملی اختیار کرنا چاہئے؟
اللہ تعالیٰ اپنے دین کے لئے ہماری خدمات کو قبو ل فرمائے،اس سانحے میں جامِ شہادت نوش کرنے والے اُن فرزندان اور دخترانِ اسلام کی قربانی کو قبول فرمائے جنہوں نے نیک اسلامی مقاصد کے لئے اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کردیا۔ آمین! (حافظ حسن مدنی)